میرٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی رک گئی

پاکستانی عدلیہ کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل کی ہڑتال کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کی سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر کے جج کو سپریم کورٹ لے جانے کے فیصلے پر نظر ثانی شروع کر دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ وکلا کی سب سے بڑی ملک گیر نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جج کی خالی اسامی کیلئے سندھ ہائیکورٹ کے چار سینئر ججز کو نظر انداز کر کے سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر موجود سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ لیجانے کے مجوزہ منصوبے کے خلاف 13 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کی تھی چونکہ اس روز ججز کے تقرر کیلیے اسلام آباد میں جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہو رہا تھا جس کی صدارت چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں 17 ججز کام کرتے ہیں جن میں سے دو ججز کی آسامیاں خالی تھیں جب پر تقرریوں کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ تاہم اجلاس میں لمبی بحث کے بعد دو میں سے ایک سیٹ کو بھرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ دوسری کا فیصلہ وقتی طور پر ملتوی کردیا گیا۔ اس اجلاس میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کے ناموں پر غور ہوا لیکن مندوخیل کو سپریم کورٹ لے جانے کا فیصلہ فائنل ہو گیا جب کہ محمد علی مظہر کا کیس روک دیا گیا کیونکہ پاکستان بار کونسل کا موقف تھا کہ انکی تقریری الجہاد کیس میں سنیارٹی کے قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔
خیال رہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب گزشتہ برس چار نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے جبکہ لاہور ہائیکورٹ سے تعلق رکھنے والے جسٹس منظور احمد ملک اپنے عہدے کی معیاد مکمل پر اس سال 30 اپریل میں سپریم کورٹ سے رخصت ہو گے تھے. ان دو ججز کی ریٹائرمنٹ کے بعد انکی جگہ نئے ججز کے تقرر کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا تھا جس میں سندھ ہائیکورٹ کے ایک جونیئر جج کو چار سینیئر ججز پر ترجیح دی جا رہی تھی جس کے خلاف پاکستان بار کونسل نے ملک گیر ہڑتال کی تھی۔
بار کونسل کا موقف تھا کہ کہ سنیارٹی قانون کی خلاف ورزی کی کوشش حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر کی جا رہی ہے تاکہ اعلی عدلیہ میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کیا جا سکے۔ بار کونسل کا موقف تھا کہ 26 مارچ 1996 کے ججز کیس یا الجہاد کیس میں سینیارٹی کے اعتبار سے سپریم کورٹ میں ججز کے تقرر کا اصول کا متعین کیا گیا جس کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہئیے۔
اس سے پہلے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کو بھی اسی بے اصولی کا نشانہ بنایا گیا اور بطور جج سینئر ترین ہونے کے باوجود انہیں سپریم کورٹ کا جج نہ بنایا گیا۔ جسٹس وقار نے اپنی حق تلفی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک رٹ بھی دائر کی تھی جو ان کی اچانک موت تک چیف جسٹس گلزار کے پاس زیرالتوا رہی۔ چناچہ بار کونسل کی ہڑتال کے باعث جسٹس محمد علی مظہر کی تعیناتی پر فیصلہ روک دیا گیا لیکن سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل کی بطور سپریم کورٹ جج تقرری کی سفارش کر دی۔
اس تقرری کی حتمی منظوری کے لیے معاملہ پارلیمانی کمیٹی برائے تقرری ججز کو بھجوا دیا گیا ہے جس کے بعد وزارت قانون نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ یاد دہے کہ سات سال بعد بلوچستان ہائی کورٹ سے کسی جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس سے قبل ستمبر 2014 میں بلوچستان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا تھا جنہیں سپریم کورٹ سے نکلوانے کے لیے حکومت سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔
بلوچستان بار کے مطابق جسٹس جمال پہلے بلوچ جج ہوں گے جو سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کیے جائیں گے۔ اُن کا تعلق پشتون مندوخیل قبیلے سے ہے۔ پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر کاکڑ کا کہنا یے بلوچستان کی مٹی سے پہلا جج سپریم کورٹ کا جج بنے گا اور وہ بھی میرٹ پر’۔ واضح رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں سات ججز پنجاب سے، پانچ ججز سندھ ہائی کورٹ سے، دو ججز خیبر پختونخوا جبکہ ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان سے ہیں۔