میری کہانی !

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ : روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

آج مجھے آذر بہت یاد آ رہا ہے۔

وہ نوائے وقت میں میرے کولیگ تھے، سوٹڈ بوٹڈ رہتے تھے، میری میز ان کے برابر میں تھی، دفتر میں داخل ہوتے تو پورا دفتر ان کی خوش بیانی سے نہال ہو جاتا۔ وہ آتے ہی پہلے کوٹ کی جیب سے ٹنگے کتنے سارے قلم میز پر سجا دیتے، اس کے بعد کوٹ اتارتے اور اس کے ساتھ ہی پھلجھڑیوں کی بارش شروع ہو جاتی۔ وہ باری باری ہر ایک کو مخاطب کرتے اور ایسا جملہ کستے کہ جس پر جملہ کسا گیا ہوتا وہ ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتا، اس سے اندازہ لگائیں کہ باقیوں کاکیا حال ہوتا ہوگا۔ اور ہاں انہو ں نے ہیٹ بھی پہنا ہوتا تھا جو وہ کافی دیر بعد اتارتے۔ وہ بہترین نیوز ایڈیٹر تھے، بہت کم وقت میںاپنا کام مکمل کرتے، درمیانی عرصے میں ان کی چھیڑ چھاڑ جاری رہتی۔اس روز ہماری عید ہو جاتی جب ایک قصبے کا نامہ نگار اپنے علاقے کی خبریں بھیجتا تھا۔آذر ایک ایک کرکے یہ خبریں ہمیں سناتے، خود سنجیدہ چہرہ بنائے رکھتے مگر یہ خبریں ایسی ہوتیں کہ یہ سننے کے بعد سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی بھی اپنی سنجیدگی برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک دفعہ اس نامہ نگار نے جو خبر بھیجی وہ یہ تھی کہ گزشتہ روز شہر میں شدید بارش ہوئی جس سے بجلی کی تاریں سڑک پر آن گریں۔ ایک کمہار اپنے گدھے کو لے کرآ رہا تھا کہ اس کی نظر ان تاروں پر پڑی، اس نے اپنے گدھے سے کہااے میرے پیارے گدھے آگے مت جا۔ آگے موت کھڑی تیرا انتظار کر رہی ہے، مگر اس نے مالک کی ایک نہ سنی اور اپنے مالک کی قسمت پر آنسو بہاتا ہوا مالک ِ حقیقی سے جا ملا۔ اس کے علاوہ ایک خبر اور بھی تھی اور وہ خبریہ تھی کہ ایک مائی ایک دیوار کے قریب بیٹھی چنے بھونا کرتی تھی، بارش کی وجہ سے وہ دیوار اس پر آن گری اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئی۔ کسی نے سچ کہا ہے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ آذر اس طرح کی خبریں تلاش کرکے ہمیں سنایا کرتے تھے۔ اس نوع کی ایک خبر کرائم رپورٹر کی تھی۔ گزشتہ ہفتے بھونڈ پورہ میں ایک ہفتہ کے دوران سات چوریاں ہوئیں، اس طرح کی خبروں میں عموماً ’’واضح رہے‘‘ کہنے کے بعد بات مکمل کی جاتی ہے۔ چنانچہ کرائم رپورٹر نے آخر میں لکھا تھا ’’واضح رہے بھونڈ پورہ میں ابھی مزید چوریاں ہوں گی‘‘۔ اس حوالے سے لطیفہ یہ ہوا کہ آذر جب یہ خبر ہمیں سنا رہے تھے وہ کرائم رپورٹر اچانک آن دھمکا اور اسے دیکھتے ہی ہماری ہنسی قہقہے میں تبدیل ہوگئی ، وہ آخر تک پوچھتا رہا کہ تم مجھے دیکھ کر کیوں ہنسے ہو، اب ہم اسے کیا بتاتے؟۔آذر کی موجودگی میںہم بور نہیں ہوتے تھے اور آپ یقین کریں کہ ان تمام حرکتوں کے باوجود کام کا حرج نہیں ہوتا تھا، چنانچہ ہم بروقت اپنی کاپی تیار کرکے پریس کو بھجوا دیتے۔ ایک دفعہ ہمیں پتہ چلا کہ آذر نے استعفیٰ دیدیا ہے، ہمیں استعفے کی وجہ معلوم نہیں تھی، مگر اس سے دفتر پر اداسی کے سائے براجمان ہوگئے جو آذر کی موجودگی میں کشتِ زعفران بنا رہتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ میں نیوز روم سے الگ ہو کر پورا وقت کالم نگاری کو دینے لگا۔ آہستہ آہستہ آذر کی یاد کم ہونے لگی اور پھر مزید عرصہ گزرنے کے بعد میں انہیں بالکل بھول گیا۔ ایک دفعہ میں اپنے لمبریٹا اسکوٹر پر سمن آباد سے گزر رہا تھا کہ مجھے ایک تھڑے پر بیٹھا ہوا شخص آذر لگا مگر یہ شخص تو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھا۔اس کے باوجود میں نے اپنا شک دور کرنے کیلئے اسکوٹر اس کے قریب جا کھڑا کیا ، یہ آذ ر ہی تھے، میں نے گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا، مگر مجھے لگا جیسے میں کسی لاش سے معانقہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ہاتھ ان کی کمر کے گرد ڈالے ہوئے تھے، مگر ان کے ہاتھ پہلے ہی کی طرح بے حس تھے، میں نے انہیں پکارا ’’آذر صاحب‘‘

ہتک آمیز مواد !

مگر میری آواز فضاؤں میں گم ہوگئی۔ میں انہیں دیکھتا رہا، وہ مجھے نہیں دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا ’’آذر صاحب میں عطاء الحق قاسمی ہوں‘‘

مجھے ادھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے دوتین مرتبہ انہیں مخاطب کیا، انہیں وہ دن یاد دلانے کی کوشش کی، جو ان کی معیت میں گزارے تھے، مگر انہیں کچھ یاد نہ تھا، ہر وقت ہنسنے والا چہرہ ایک سنسان اور ویران چہرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں شاید ان کی تنہائی کی محفل میں مخل ہوا تھا، وہ مجھے دیکھے بغیر اٹھے اور شاید کسی ایسی منزل کی طرف چلنا شروع کردیا، جس کا نقشہ صرف ان کے ذہن میں تھا۔میں نم آلود آنکھوں سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔ (جاری ہے)

Check Also
Close
Back to top button