میں نے دھوکے اور بے وفائی پر نور کو قتل کیا

اسلام آباد میں ایک سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کو سفاکانہ طریقے سے قتل کرنے والے ملزم ظاہر جعفر نے کہا ہے کہ اس نے نور کو دھوکا دینے اور بیوفائی کرنے پر قتل کیا۔ نور مقدم قتل کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس حکام کے مطابق ملزم ظاہر جعفر نے اپنے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائے جانے پر اعتراف جرم کر لیا ہے، اور قتل کی وجہ ’دھوکہ‘ اور ’بے وفائی‘ بتائی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ ملزم ظاہر نے پولیس کو قتل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’نور مقدم میرے ساتھ بے وفائی کررہی تھی جس کا مجھے دکھ تھا۔ مجھے جب اس دھوکہ دہی کا پتہ چلا تو میں نے اُسے روکا بھی مگر وہ نہیں مانی۔ میرے لیے نور کی بے وفائی ناقابل برداشت تھی۔ وہ میرے علاوہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی تھی لہذا میں نے اس کو قتل کر دیا‘۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم کا دفعہ 161 کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے اور اسکا مذید ریمانڈ بھی مل چکا ہے جس کے ختم ہونے پر اسے اڈیالہ جیل بھجوایا دیا جائے گا۔ اس سے قبل ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ملزم ظاہر جعفر نے کہا تھا کہ صحافیوں کے سوالات کے جواب ان کے وکیل دیں گے۔ اسکا بار بار ایک ہی کہنا تھا کہ وہ ایک امریکی شہری ہے اور اسے سفارتی رسائی دی جائے۔
لیکن دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ کسی بھی غیر ملک میں مقیم امریکی شہریوں پر وہاں کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ ’اگر کوئی امریکی کسی اور ملک میں گرفتار ہوتا ہے تو سفارت خانہ اسے وکلا کی فہرست فراہم کرسکتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کر سکتا ہے لیکن اس کی رہائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔‘ یاد رہے کہ چند روز پہلے امریکی حکام کام نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ قاتل کا 161 کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد اب 164 کا بیان ریکارڈ کرنے کا انتظار ہے۔ یاد رہے کہ قانون کے مطابق 161 کا بیان زبانی ہوتا ہے جو ملزم تفتیشی افسر کے سامنے دوران تفتیش دیتا ہے۔ پولیس اپنی تفتیش میں جمع کیے گئے ثبوت اور زبانی بیان کو چالان کا حصہ بنا کر عدالت میں پیش کرتی ہے، جس کے بعد ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق 161 کے بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں ملزم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ اقبال جرم کرتے وقت دباؤ کا شکار تھا۔ دوسری جانب 164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوتا ہے اور کمرے میں ملزم اور مجسٹریٹ کے علاوہ کوئی تیسرا شخص موجود نہیں ہوتا۔ اس تحریری بیان کی قانونی حیثیت ہوتی ہے۔ ملزم بیان سے پہلے حلف دیتا ہے کہ وہ بغیر دباؤ اور ہوش و حواس میں یہ بیان دے رہا ہے۔
قاتل ظاہر جعفر کے وکیل شاہ خاور نے بھی یہی بتایا ہے کہ سات روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر چالان پیش کر دیا جائے گا اور ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا جائے گا۔ پولیس حکام کے مطابق پہلے پہل ملزم قتل کی وجوہات کبھی کچھ اور کبھی کچھ بتاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم ظاہر ایک سٹیج پر تو جرم سے بھی انکار کر رہا تھا لیکن ایف سیون فور میں واقع اسکے مکان میں تین سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے جن کی فوٹیج پولیس نے حاصل کرلی تھی جو ملزم کو بھی دکھائی گئی جسکے بعد اس نے جرم تسلیم کر لیا۔ پولیس کے مطابق ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 29 جولائی کی سہ پہر تقریباً چار بجے حالات کشیدہ ہوئے جب نور مقدم بالکنی سے چھلانگ لگا کر باہر گارڈ کے پاس بھاگتی ہوئی آتی ہیں، جس کے بعد وہ اپنے آپ کو سکیورٹی گارڈ کے کیبن میں بند کر لیتی ہیں۔ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ظاہر لاؤنج کے دروازے سے باہر نکل کر گارڈ کے کیبن تک آتے ہے اور نور کو کیبن سے نکال کر گھسیٹ کر واپس اندر لے جاتا یے۔ پولیس کے مطابق باہر موجود گارڈ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتے رہے لیکن کسی نے ظاہر جعفر کو تشدد کرنے سے نہ روکا۔ پولیس نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق گلی میں اور لوگ بھی موجود تھے، جنہوں نے نور کو گھسیٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ پولیس نے ان کا بیان بھئ حاصل کیا ہے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ملزم مقتولہ کو دوبارہ اوپر لے کر گیا جبکہ تشدد سے لے کر قتل کے درمیان تین گھنٹے کا وقت تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق جس وقت یہ واقعہ ہوا تو گارڈ اور گھریلو ملازم نے ظاہر کے والدین کو کراچی فون کیا اور گھر میں ہونے والے معاملے سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے پولیس کو بتانے کی بجائے تھیراپی ورک والوں کو فون کر کے ظاہر کو قابو کرنے کا کہا۔
یاد رہے کہ ظاہر جعفر کی والدہ خود بھی سیک ماہر نفسیات ہیں اورتھیراپی ورک سے منسلک ہیں، انہوں نے ہی کراچی سے تھیراپی ورک کو فون کیا تھا۔ معلومات کے مطابق فون کے بعد تھیراپی ورک کے چند افراد وہاں آئے اور ظاہر سے کمرے سے باہر آنے کی درخواست کرتے رہے لیکن نظر آنے والی فوٹیج کے مطابق ظاہر کمرے کی بالکونی میں کھڑے ہو کران سے مذاکرات کرتے رہے لیکن نیچے نہیں آئے۔ اس کے بعد وہ واپس اندر کمرے میں چلے گئے اور اسی دوران نور کا قتل ہو جاتا ہے۔ جبکہ اسی اثنا میں پڑوس میں سے پولیس کو فون کال کر کے وقوعہ کے بارے میں اطلاع دی گئی۔
انتظار کے بعد جب ظاہر دوبارہ نمودار نہیں ہوئے تو باہر کھڑے افراد اندر کمرے کے دروازے تک گئے، لیکن دروازہ بند تھا۔ پھر وہ باہر آئے اور سیڑھی لگا کر ٹیرس پر چڑھے اور وہاں سے کمرے کی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوئے تو اندر داخل ہونے والے پہلے شخص پر ظاہر نے لوہے کے مکے اور خنجر سے وار کیے جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ زخمی کو بعد ازاں پمز میں منتقل کیا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا۔ کمرے میں نور کی لاش فرش پہ تھی۔ فرش پر خون تھا اور ظاہر کے کپڑوں پر بھی خون لگا ہوا تھا۔ کمرے میں موجود چادر اور دوپٹے کے مدد سے ظاہر کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے جبکہ اسی اثنا میں پولیس بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔ پولیس نے موقع سے آلہ قتل برآمد کر کے ملزم کو حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق یہ 20 جولائی کی شام چار سے لے کر رات آٹھ بجے تک کی تفصیلات ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم کی والدہ اور سکیورٹی گارڈز نے تین گھنٹے تک واقعہ چھپایا۔ ملزم کی والدہ یا سکیورٹی گارڈز اگر بروقت اطلاع دیتے تو نور کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ اب ملزم کا مکان بند ہے اور پولیس کی نگرانی میں ہے۔ کائی زدہ دیواروں والے دو منزلہ مکان کی دیواروں پر بھورا رنگ کیا گیا ہے اور اس کا دروازہ ہلکا کتھئی ہے۔ مکان کی دوسری منزل کی تین کھڑکیاں سڑک کی جانب کھلتی ہیں جن میں سے ایک بالائی لاؤنج کی جبکہ باقی دائیں اور بائیں جانب کمروں کی کھڑکیاں بالکنی میں کھلتی ہیں جن میں سے ایک ظاہر کا کمرہ ہے جہاں سے نور مقدم نے نیچے پورچ میں چھلانگ لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ مکان کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ اس کے سامنے والے پورشن میں تین سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے۔ ایک کیمرا گارڈ کے کیبن کے اوپر جبکہ بقیہ دو کیمروں میں سے ایک کار پورچ جبکہ دوسرا اندرونی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر نصب ہے۔ مکان کے بائیں جانب کونے والا کمرہ ظاہر جعفر کا ہے جس کی کھڑکی سے نظر آتا ہے کہ پردے کی ریلنگ دھینگا مشتی میں اکھڑ گئی ہے۔پولیس نے ان تینوں کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی ہیں۔
یاد رہے 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم ظاہر جعفر کو موقعے سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کا بگڑا ہوا بیٹا ہے جو جعفر گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ پولیس نے جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکرجعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی حراست میں لے کر انکا جسمانی ریمانڈ حاصل کر رکھا ہے۔