ناکام ارسطو نےتحریک انصاف کے ساتھ سیاست کیوں چھوڑ دی؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاشی ارسطو اسد عمر نے میڈیا پر فرح گوگی کے دفاع کیلئے پارٹی کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سابقہ خاتون اول بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کی یار غار اور فرنٹ پرسن فرح گوگی کی گزشتہ دنوں جائیدادیں، کاروار اور بنک بیلنس کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں جس پر اسد عمر کو ٹی وی چینلز پر اس حوالے سے فرح گوگی کے دفاع کی ہدایات جاری کی گئیں تاہم اسد عمر نے صاف انکار کر دیا۔ اسد عمر کی جانب سے انکار ان کے فوری استعفے کی وجہ بنی۔ تاہم دوسری جانب اسد عمر کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسد عمر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ مخالف پالیسی سے کافی نالاں تھے انھوں نے پارٹی میٹنگز میں بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پارٹی کی اسی جارحانہ حکمت عملی کی وجہ سے ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مرکزی رہنما تو کجا پارٹی کارکنان بھی باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں اگر اسٹیبلشمنٹ مخالف پالیسی پر عملدرآمد جاری رہا تو تحریک انصاف کا مستقبل تاریک ہی رہے گا تاہم دوسری جانب سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے کی وجہ سے اسد عمر نے باعزت طور پر پارٹی اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے سیاست کو مکمل طور پر چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ اسد عمر کے والد غلام عمر کا تعلق پاک فوج سے تھا اور میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائر ہوئے جبکہ ان کے بھائی محمد زبیر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔اسد عمر سیاست میں آنے سے قبل 2011 میں اینگرو کمپنی کے سی ای او تھے اور ماہانہ 57 لاکھ سے زائد تنخواہ لے رہے تھے۔اسد عمر کو پی ٹی آئی کا اہم بنیادی رکن سمجھا جاتا تھا اور عمران خان کی جانب سے پارٹی میٹنگز اور جلسوں میں ببناگ دہل کہا جاتا تھا کہ اسد عمر اپنی قابلیت سے ملک کو معاشی مسائل سے نکال لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے اور انہوں نے صرف 8 ماہ بعد ہی وفاقی وزیر خزانہ کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
خیال رہے کہ اسد عمر نےسیاست میں شامل ہونے کے لیے اینگرو کی صدارت اور سی ای او کے عہدے سے 50 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لی تھی۔اپنی ملازمت کے آخری سال 2011 میں اسد عمر کو اینگرو کمپنی کی جانب سے 6 کروڑ 70 لاکھ روپے تنخواہ دی گئی۔اسد عمر نے سال 2012 میں عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جس پر ان کو پارٹی کا سینیئر وائس پریزیڈنٹ بنایا گیا۔ اسد عمر نے 2013 کے عام انتخابات میں اسلام آباد کے حلقے این اے 48 سے مسلم لیگ نون کے رہنما کو شکست دی اور رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
اسد عمر سال 2013 سے 18 تک اس وقت کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاشی فیصلوں پر تنقید کرتے رہے اور اپنا بہتر پلان بتاتے رہے۔سال 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی رہنما نے پھر اسلام آباد کے حلقے این اے 54 سے مسلم لیگ نون کے رہنما عقیل انجم کو شکست دی اور ایک مرتبہ پھر سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔وزیراعظم عمران خان نے جب اپنی کابینہ کا اعلان کیا تو 20 اگست 2018 کو اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ کا عہدہ دے دیا گیا۔اسد عمر نے اکتوبر 2018 میں آئی ایم ایف کے سربراہ سے میٹنگ کی اور آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے لیے اپلائی کیا، کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سربراہ سے ہونے والی میٹنگ کے بعد سے اسد عمر کی کارکردگی سے وزیراعظم عمران خان مطمئن نہ تھے۔لہذا 18 اپریل 2019 کو اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، 9 جولائی کو اسد عمر اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن بن گئے اور بعد ازاں 19 نومبر 2019 کو وزیراعظم عمران خان نے اسد عمر کو ایک مرتبہ پھر سے وفاقی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ دے دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے توشہ خانہ تحقیقات کے سلسلے میں رینجرز نے جب گرفتار کیا تو ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ کیا گیا اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ ان حملوں کے بعد سے پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد یکے بعد دیگرے پی ٹی آئی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کر کے 9 مئی واقعات کی مذمت کی اور سیاست اور پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان کیا، جبکہ بعض نے دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا اعلان کیا۔
اسد عمر نے بھی سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم اسد عمر کو سائفر کیس میں ایک مرتبہ پھرعدالت نے طلب کر لیا کہا گیا کہ اسد عمر کو گرفتار کیا گیا لیکن خود ہی اسد عمر 2 دنوں بعد اپنی ضمانت کے لیے عدالت پہنچ گئے۔ ابھی اسد عمر کے خلاف سائفر کیس زیر سماعت ہے تاہم 11 نومبر کو اسد عمر نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ایک دہائی سے زیادہ عوامی زندگی کے بعد اب وہ سیاست کو مکمل طور پر چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے انھوں نے مزید لکھا کہ ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی سے متفق نہیں ہوں اور ایسی پالیسی ریاستی اداروں کے ساتھ شدید ٹکراؤ کا باعث بنی ہے جو کہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔