نواز، شہباز اور مریم کا کراچی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ؟

آئندہ عام انتخابات میں نون لیگ اپنے کم از کم 3 ہیوی ویٹ رہنمائوں کو کراچی سے میدان میں اتارنے پر غور کر رہی ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ان رہنمائوں میں نون لیگ کے قائد نواز شریف، پارٹی صدر شہباز شریف اور پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز شامل ہیں۔روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی سے مریم نواز کو الیکشن لڑانے کے حوالے سے بعض خبریں میڈیا میں آئی تھیں۔ تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی شہر قائد سے الیکشن لڑانے پر مشاورت کی جارہی ہے۔ پارٹی قیادت کو یقین ہے کہ عام انتخابات تک نواز شریف کی سزائیں ختم ہو جائیں گی۔ جبکہ نااہلی کی سزا کی مدت پانچ برس ہونے کا قانون بن جانے کے بعد نواز شریف الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہو چکے ہیں۔
پارٹی ذرائع کے بقول پارٹی کے ان تین رہنمائوں کو کراچی سے الیکشن لڑانے کے بارے میں ابھی صرف ابتدائی مشاورت ہوئی ہے۔ حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اگر نواز شریف کے کراچی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیں بھی ہوتا تو پھر بھی شہباز شریف اور مریم نواز کے کراچی کے انتخابی میدان میں اترنے کے روشن امکانات ہیں۔ دسمبر کے آخر یا جنوری کے آغاز تک اس حوالے سے پارٹی کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق نون لیگ کے متذکرہ اہم رہنمائوں کو کراچی سے الیکشن لڑانے سے پہلے ان کی جیت کے امکانات کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان سے ہونے والی انڈر اسٹینڈنگ کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ جیت کے امکان کو یقینی بنائے بغیر ان رہنمائوں کو کراچی کے انتخابی میدان میں اتارنا چونکہ ایک رسک ہو گا کیونکہ نون لیگ کے مرکزی رہنماؤں کی شکست پارٹی کیلئے سبکی کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی لیے کوشش کی جارہی ہے کہ پہلے اس حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل طے کر لیا جائے اور اس کے بعد ہی حتمی فیصلہ کیا جائے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق کراچی میں ایسے ایک سے زائد انتخابی حلقے ہیں۔ جہاں سے نون لیگ سیٹیں نکال سکتی ہے۔ ان میں کورنگی، کیماڑی، ملیر، بلدیہ کے انتخابی حلقے نون لیگ کی نظر میں ہیں۔اگر دو ہزار اٹھارہ کے گزشتہ عام انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو کورنگی 3 کا حلقہ این اے دو سو اکتالیس سے پی ٹی آئی کے امیدوار فہیم خان نے چھبیس ہزار سات سو چھ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کا امیدوار تئیس ہزار آٹھ سو تہتر ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھا۔ ٹی ایل پی انیس ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسرے، جبکہ نون لیگ سولہ ہزار آٹھ سو بانوے ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہی تھی۔
اگر نون لیگ اپنے کسی اہم رہنما یا امیدوار کو اس حلقے سے دوبارہ میدان میں اتار کر سیٹ جیتنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اس حلقے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ناگزیر ہے۔ پچھلے الیکشن میں اگر دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو مجموعی تعداد چالیس ہزار سات سو پینسٹھ بنتی ہے۔ جبکہ جیتنے والے پی ٹی آئی امیدوار نے اس سے نصف سے کچھ زیادہ ووٹ لیے تھے۔ چونکہ اب پی ٹی آئی کے لیے حالات پہلے والے نہیں رہے اور اس بار آر ٹی ایس بیٹھنے کا بھی امکان نہیں۔لہٰذا آئندہ انتخابات میں اس حلقے سے اگر پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار الیکشن لڑتا بھی ہے تو ماضی کے مقابلے میں اسے آدھے ووٹ بھی پڑنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ اس حلقے میں دوسرے نمبر پر آنے والی ایم کیو ایم پاکستان کیا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے طور پر نون لیگ کے حق میں اپنا امیدوار بٹھائے گی؟ تاہم اگر یہاں اگر نون لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان مل جاتے تو پی ٹی آئی کسی صورت سیٹ نہیں نکال سکتی تھی۔
دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں کیماڑی کی سیٹ این اے دو سو اننچاس کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو یہاں سے شہباز شریف کی جیت کا نون لیگ کو پورا یقین تھا۔ تاہم یہ نشست پی ٹی آئی امیدوار فیصل واوڈا حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انہیں پینتیس ہزار تین سو چوالیس ووٹ ملے تھے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے شہباز شریف کو اس سے صرف سات سو اٹھارہ ووٹ کم یعنی چونیتیس ہزار چھ سو چھبیس ملے تھے۔ یوں وہ انتہائی کم مارجن سے ہارے تھے۔نون لیگی ذرائع کے بقول پارٹی قیادت کو اس بار بھی اس سیٹ کو حاصل کرنے کا کافی یقین ہے اور غور کیا جارہا ہے کہ اگر شہباز شریف کو دوبارہ کراچی سے الیکشن لڑانے کا حتمی فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو پھر اسی حلقے سے میدان میں اتارا جائے یا پھر یہاں سے مریم نواز کو الیکشن لڑایا جائے۔ اگر ایم کیو ایم سے نون لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی ہے تو کامیابی کا امکان بڑھ جائے گا۔