نواز شریف پیچھے ہٹیں گے یا شہباز آگے بڑھیں گے؟

آنے والے دنوں میں نواز شریف اپنے مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹتے ہیں یا پھر شہباز شریف اہنے مفاہمتی بیانیے میں آگے بڑھتے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس سے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی سیاست کی سمت اور کپتان حکومت کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ ہے تو یہ خاندانی سیاست کی اندرونی کشمکش، لیکن اس کے مضمرات کافی فیصلہ کن ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار سینیئر صحافی اور امتیاز عالم نے اپنے تازہ تجزیے میں کیا ہے۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ روز اول سے شہباز شریف افہام وتفہیم کی سیاست کے قائل رہے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کے تابعدار اور برے وقت میں انکا ساتھ بھی نبھاتے رہے ہیں۔ بدترین مواقع پر بھی انہوں نے مصالحت کی کھڑکیاں کھلی رکھیں، لیکن اپنے بھائی کی سیاست کی قیمت پر نہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی سیاست میں سب سے اہم رول ان کے والد میاں شریف کا رہا جن کی وفات کے بعد نواز شریف خاندان کے سرپرست بنے۔ پہلے سارا کاروبار اور سیاست مشترک تھی۔ میاں شریف کی وفات کے بعد اب سب کے الگ الگ کاروبار ہیں اور ترجیحات بھی الگ الگ ہیں۔ اگلی نسل میں وہ یکجہتی بھی نہیں جو پچھلی نسل میں تھی۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ نواز شریف زندگی بھر کے لئے عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کردئیے گئے ہیں اور شہباز شریف کے لئے غالباً یہ آخری موقع ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوسکیں۔
امتیاز عالم یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی نااہلی پر شہباز شریف کو پارٹی کا صدر نامزد کیا اور وزارت عظمیٰ کے لئے بھی وہ ان کی پہلی چوائس تھے۔ لیکن دونوں بھائیوں کی عدم موجودگی میں عملاً مریم نواز اپنے والد کا مزاحمتی بیانیہ لے کر بہت مقبول ہوئیں اور اتنی کہ وہ ن لیگ کا عوامی چہرہ بن گئیں۔ اب لوگ مریم ہی کی آواز پہ اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ اپنے والد کی سپرستی میں ن لیگ کی عوامی لیڈر تسلیم کی جانے لگی ہیں۔ امتیاز عالم کے مطابق جتنی مریم فوج کے خلاف ڈٹیں، اتنی ہی انہیں عوامی مقبولیت بھی ملی۔ لیکن شہباز شریف کی رہائی کے بعد حالات نے پلٹا کھایا ہے۔ وہ اب زور شور سے اپنی مفاہمتی لائن پہ ڈٹ گئے ہیں۔ شہباز پارٹی کے صدر بھی ہیں اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی۔ ان کے سامنے بڑا ہدف 2023ء کے عام انتخابات ہیں اور وزارت عظمیٰ کا قلمدان بھی۔ وہ کسی بھی قیمت پر اس ہدف کو حاصل کرنے کے متمنی ہیں اور اس کے لئے راستہ فوج کے ہیڈکوارٹر سے ہوکر گزرتا ہے، جہاں ان کے لئے کافی نرم گوشہ ایک عرصہ سے موجود ہے۔ امتیاز کے مطابق یہ شہباز شریف ہی تھے جن کی خاموش ڈپلومیسی برے وقت میں شریف خاندان کے کام آئی۔ ان کے خیال میں فوج سے تصادم نون لیگ کو بند گلی میں لے گیا ہے جس سے وہ نکلنا چاہتے ہیں۔ دراصل نواز شریف اور ان کے بیٹوں پہ کوئی بوجھ نہیں اور بیٹی پر بھی کوئی ایسا کیس نہیں جو ان کے ہاتھ باندھ سکتا ہو۔ لہٰذا وہ فرنٹ فٹ پر کھیل سکتے ہیں جو ان کی بیٹی کی مزاحمتی سیاست کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہے۔ لیکن شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ کے لیے صورتحال کافی مشکل اور پریشان کن ہے۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ اب نواز شریف اور شہباز شریف کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب دو متضاد طرزِ عمل نہیں چل سکتے۔ ویسے بھی پی ڈی ایم کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے اور مریم نے اپنی ناپختگی کے باعث اسے توڑ دیا ہے۔ نواز کی مزاحمتی سیاست کو جو عوامی حمایت درکار تھی وہ نہ مل سکی۔ نعرہ بازی سے بھلا فوجی راج کب جانے والا تھا۔ نہ ہی ان کی جماعت کی کوئی مزاحمتی روایت ہے۔ مسلم لیگ کے طبقاتی خمیر یا جینز میں کسی طرح کی انقلابی امنگ نہ تو تھی اور نہ ہی ہے۔ نواز شریف کی سیاست پی این اے کے گرد و غبار میں جنرل ضیا کی نرسری میں ابھری اور وہی ان کی لیگ کے کرم فرما تھے جو 1973 کے آئین کے خالق بھٹو کے عدالتی قتل کے ذمہ دار بھی تھے۔ پھر جنرل اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا جس کے سالار نواز شریف تھے۔ چونکہ آٹھویں ترمیم کے سامنے کوئی اسمبلی اور کوئی وزیراعظم نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اس لئے 90 کی دہائی میں کوئی حکومت مدت پوری نہ کرسکی اور ہر وزیراعظم کا تقریباً ہر آرمی چیف سے تصادم ہوتا رہا۔ امتیاز عالم کے مطابق نواز شریف کی سیاسی کایا ان تلخ تجربات کے باعث پلتی جو انہیں بطور سویلین چیف ایگزیکٹو درپیش آئے لیکن چارٹر آف ڈیموکریسی پہ دستخط کرنے کے باوجود دونوں جماعتیں فوج کے ہاتھوں کھلونا بنی رہیں اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں۔ اپنی تیسری حکومت میں بھی نواز شریف مسلسل فوج سے سمجھوتے کرتے رہے تاآنکہ وہ پھر اس سے متصادم ہو کر اقتدار سے باہر ہوگئے۔
لیکن امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ نواز شریف میں ایک غضب کی خوبی ہے، وہ بری طرح پھنس کر بھی جال سے نکل جاتے رہے جیسا کہ مشرف سے ڈیل اور اب پھر عمران کے چنگل سے بھی نکل جانا۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور اس کے تاجروں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے وصف میں تھا کہ وہ سمجھوتہ بھی کرے اور کبھی کبھار آنکھیں بھی دکھائے۔ بھٹو اور بھٹو مخالف سیاست میں سے نواز شریف ایک متبادل رول ماڈل کے طور پر سامنے آئے جو پنجابی بورژوازی کے دہرے کردار اور سرعت سے معاشی اور سیاسی پھلانگ کا مظہر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نعرہ تو ابھی بھی جیئے بھٹو کا لگاتی ہے، لیکن یہ بھی شریفوں کی سیاست اپنا کر اپنا حقیقی عوامی کردار کھو بیٹھی ہے۔ بائیکاٹ، دھرنے اور استعفوں کی سیاست کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد قبل از وقت عمران حکومت کو چلتا کرنے کا عزم خاک میں مل گیا اور پی ڈی ایم تقسیم ہوکر اپنی مزاحمتی قوت گنوا بیٹھی۔ اگر پی ڈی ایم واقعی فوج کو آئین کے قالب میں ڈھالنے میں سنجیدہ ہوتی تو ایک بڑے عوامی انقلاب کی تیاری کرتی یا پھر ایک تدریجی اصلاحاتی حکمت عملی ترتیب دیتی اور خالی خولی نعرہ بازی پہ اکتفا نہ کرتی۔امتیاز عالم کے مطابق اب بچا ہے تو ان ہاؤس تبدیلی اور سلیکٹڈ کی جگہ سلیکٹڈ بننے کا گھن چکر۔ لیکن جو اپوزیشن اکٹھی نہ رہ سکی وہ ایک متبادل انتظامیہ سامنے لانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ لگتا ہے کہ اب تبدیلی کا رہٹ 2023 کے انتخابات ہی میں چلے گا اور شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی نگاہیں اسی پر ہیں۔ پی ڈی ایم کے پاس اب قبل از وقت انتخابات کرانے کی قوت نہیں رہی، لہٰذا یہ بھی اب 2023 تک انتظار کرنے پر مجبور ہوگی۔
ان حالات میں نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کا سکہ چلنے والا نہیں اور شہباز شریف یہ جانتے ہوئے ہی خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہیں۔ دیکھتے ہیں شریف خاندان کی سیاست کیا کروٹ لیتی ہے اور اس کے لئے شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے پاؤں پڑنے یا پھر سیاست سے کنارہ کشی کے لئے بھی تیار ہیں۔