نیب نے خواجہ آصف کے خلاف اپنا مقدمہ قائم نہیں کیا،

لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی درخواست ضمانت منظوری کے بعد عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سید شہباز علی رضوی پر مشتمل دو ججز کے بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ ’نہ تو کوئی ٹھوس مواد موجود ہے اور نہ ہی کسی پہلو سے یہ حتمی نتیجہ نکلا ہے کہ 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ترسیلات کسی جرم کے نتیجے میں موصول ہوئی تھی‘۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ خصوصی استغاثہ نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے واضح طور پر اعتراف کیا کہ یہ استغاثہ کا معاملہ نہیں ہے کہ درخواست گزار نے کوئی کک بیک یا کوئی ناجائز رقم وصول کرنے یا اختیارات کے غلط استعمال یا بدعنوانی کے بعد اثاثے حاصل کیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’اسپیشل پراسیکیوٹر کے بیان کے پیش نظر یہ استغاثہ کا کیس نہیں ہے کہ درخواست گزار نے اپنے عہدے کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی آمدن سے زائد اثاثے حاصل کیے‘۔
18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’یہاں تک کہ درخواست گزار کے املاک، ان کی حاصل کردہ آمدنی اور غیر ملکی ترسیلات دعوے سے متعلق ایف بی آر کے ریکارڈ بھی پورے ہیں، یہ اعتراف کیا گیا موقف ہے کہ درخواست گزار نے سرکاری خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا‘۔
ججز نے عدالت میں دائر دو رپورٹس میں نیب کے موقف کی تبدیلی پر حیرت کا اظہار کیا۔
28 اپریل 2021 کو اپنی پہلی رپورٹ میں نیب نے دعوٰی کیا تھا کہ خواجہ آصف اور ان کی اہلیہ نے 2 کروڑ 97 لاکھ اور ایک کروڑ 6 لاکھ 92 ہزار روپے کی تنخواہ حاصل کی ہے جبکہ اس کے بعد کی رپورٹ میں 18 جون 2021 کو خواجہ آصف اور ان کی اہلیہ کی طرف سے حاصل کردہ تنخواہ کو اجتماعی طور پر 2 کروڑ 87 لاکھ روپے دکھایا گیا تھا۔
بینچ نے نشاندہی کی کہ درخواست گزار اور اس کی اہلیہ کی تنخواہ 4 کروڑ 5 لاکھ روپے سے کم ہو کر 2 کروڑ 87 لاکھ 72 ہزار روپے تک کیسے ہوئی اسپیشل پراسیکیوٹر اس کی وجہ بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ اسی طرح کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی بغیر کسی وجہ کے 8 کروڑ 21 لاکھ 86 ہزار روپے سے کم ہو کر 5 کروڑ15 لاکھ 69 ہزار روپے ہوگئی۔
بینچ نے مزید مشاہدہ کیا کہ 2014 کی آڈٹ یونٹ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ آڈٹ کے دوران کوئی تضاد نہیں پایا گیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم بین الاقوامی مکینیکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی (آئی ایم ای سی او) کا نمائندہ پاکستان آنا چاہتا تھا تاہم تفتیشی افسر نے تحقیقات میں دبئی کمپنی کے نمائندے کو شامل نہیں کیا۔
کہا گیا کہ خواجہ آصف نے انکم ٹیکس گوشواروں میں اپنی بیرون ملک آمدنی ظاہر کی تاہم نیب نے 2004 سے 2008 کے دوران سفارتخانے سے ان کی بیرون ملک آمدنی کی تصدیق نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار کے بارے میں مزید تفتیش کی ضرورت ہوتی ہے، استغاثہ کی جانب سے اب بھی مقدمہ عدالت کے سامنے قائم کرنا باقی ہے۔
بینچ نے گزشتہ 23 جون کو مختصر حکم کے ذریعے خواجہ آصف کی ضمانت منظور کی تھی۔