نیب نے مسلم لیگ (ن) کے 3 رہنماؤں کی ضمانت چیلنج کردی

قومی احتساب بیورو (نیب) نے مسلم لیگ (ن) کے 3 رہنماؤں، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور مفتاح اسمٰعیل کی ضمانتوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے مفتاح اسمٰعیل کی 23 دسمبر 2019 کو اور شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو 25 فروری 2020 کو بعد از گرفتاری ضمانت منظور کی تھی۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق چیئرمین مفتاح اسمٰعیل کو ایل این جی ٹرمینل اور برانچ پائپ لائن منصوبے میں بے ضابطگیوں کے الزام اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے شیخ رشید کی شکایت پر بالترتیب 18 جولائی 2019 اور 7 اگست 2019 کو نیب نے گرفتار کیا تھا۔
سابق وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال کو 23 دسمبر 2019 کو نیب نے نارووال اسپورٹس سٹی (این ایس سی) منصوبے کا سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے ذریعہ باضابطہ منظوری کے بغیر دائرہ کار بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جو ابتدا میں 3 کروڑ 50 لاکھ روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا۔
نیب کے مطابق این ایس سی منصوبے کو احسن اقبال کی ہدایت پر وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت سے غیرقانونی طور پر اپنے قبضے میں لے لیا تھا جس نے صوبائی منصوبے کو ہائی جیک کرنے کے بعد مبینہ طور پر منصوبے کے ڈیزائن کنسلٹنٹس کو منصوبوں کا دائرہ کئی گنا بڑھانے کی ہدایت کی تھی۔
نیب نے الزام لگایا کہ اس منصوبے پر نظر ثانی کی وجہ سے پی سی ون میں تقریباً 2 ارب 49 کروڑ روپے کی لاگت آئی۔
بیورو کے چیئرمین کی جانب سے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے دائر کردہ اپیل میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی کہ وہ ہائی کورٹ کے احکامات کو معطل کرے۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کو ضمانت دیتے ہوئے 2019 کے طلعت اسحٰق کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی جانب سے وضع کردہ اصولوں کو نظرانداز کیا۔
نیب نے عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ التجا بھی کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 189 کے تحت انتہائی غیر معمولی حالات پر غور کرنے کا پابند ہے۔
اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہائیکورٹ نے ملزمان کو ضمانت دیتے ہوئے ان کے مقدمات کو عام فوجداری مقدمہ سمجھا جبکہ اس کو نظرانداز کیا کہ ان پر خصوصی قانون کے تحت بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے احکامات قانون کی نظر میں پائیدار نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اعلی عدالت کو دیئے گئے صوابدیدی اختیارات کا استعمال معمول کے انداز میں کیا گیا تھا لہذا احکامات کو مسترد کیا جانا چاہیے۔