نیویارک میں ہڈ حرامی

تحریر: جاوید چوہدری ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس

برٹرینڈ رسل ہماری نسل کا استاد تھا‘ ہم لوگوں نے بچپن میں اس کا ایک آرٹیکل پڑھا تھا ’’کنکویسٹ آف ہیپی نیس‘‘ اس میں رسل نے بتایا تھا انسان کو صرف ایک ہی چیز سے خوشی ملتی ہے اور وہ ہے کام‘ آپ جتنا کام کرتے جائیں گے آپ کا دل خوشی سے اتنا ہی لبریز ہوتا جائے گا‘ اس کا کہنا تھا وقت کے زیاں اور سستی سے اداسی جنم لیتی ہے اور یہ انسان کو تباہ کر دیتی ہے‘ میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور اندھا دھند کام شروع کر دیا‘ کام کی اس زیادتی نے میرا ڈی این اے بدل دیا اور میں اب کام کے بغیر نہیں رہ سکتا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے میں بیمار بھی صرف چھٹی کے دن ہوتا ہوں‘ کام کے دنوں میں صرف اور صرف کام ہوتا ہے۔

اس کا فائدہ بھی ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے محتاجی اور تنگی سے بچالیا‘ خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل فراہم کر دیے اور دوسروں کی مدد کی اہلیت بھی بخشی لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہوا اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی پریکٹیکل ہو گیا ہوں‘ مجھ سے اب فضول گفتگو برداشت نہیں ہوتی جہاں بھی بات کی مکھی بات پر بٹھانے کی کوشش دیکھتا ہوں وہاں سے غائب ہو جاتا ہوں یا پھر چپ چاپ سنتا رہتا ہوں اور اس سے ظاہر ہے دوسروں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں تاہم نیویارک میں میرے پاس کوئی کام نہیں تھا‘

نیویارک میں چند دن

میں زندگی میں پہلی بار کسی ایک جگہ ٹک کر نو دن رہا‘ ایک ہی ہوٹل‘ ایک ہی کمرے میں نو دن گزارے‘ صبح اٹھتا تھا‘ ناشتہ کرتا تھااور نہا دھو کر اسٹریٹ 14 چلا جاتا تھا‘ وہاں کسی فوڈ کارٹ یا ریستوران سے لنچ کرتا تھا‘ 10 ایونیو سے ون ایونیو تک جاتا تھا‘ کسی نہ کسی سایہ دار جگہ پر بیٹھ کر کافی پیتا تھا اور شام کو ہوٹل واپس آ جاتا تھا‘ کھانا تلاش کرتا تھا‘ دریائے ہڈسن کے کنارے واک کرتا تھا‘ دریا کی دوسری جانب مین ہیٹن کی عمارتوں کی روشنیاں دیکھتا تھا اور واپس آ کر سو جاتا تھا‘ میں اس وسیع ہڈحرامی سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کام کرنے کا بھی مزا ہے لیکن جو مزا حرام خوری میں ہے اس کا کوئی جواب نہیں بس آپ کی جیب میں پیسے ہونے چاہییں‘ آپ بزنس کلاس‘ اچھا ہوٹل اور اچھے ریستوران افورڈ کر سکتے ہوں اور آپ نیویارک جیسے شہر میں کسی بھی جانب نکل سکتے ہوں اور تھیٹرز اور میوزیمز انجوائے کرسکتے ہوں آپ کو اللہ سے اور کیا چاہیے؟ چناں چہ آپ یقین کریں میں نے جی بھر کر حرام خوری انجوائے کی‘ اس دوران دو تین مرتبہ شکور عالم صاحب نے بھی مجھے جوائن کیا۔

شکور عالم نیویارک سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر نیوجرسی کے ایک پرسکون ٹاؤن میں رہتے ہیں‘ ان کے اردگرد آلو بخارے‘ خوبانی‘ سیب اور آڑو کے ایکڑوں پر پھیلے باغات ہیں‘ شکور صاحب اپنی بیگم کے ساتھ ان باغوں میں رہتے ہیں‘ بچے شادی شدہ ہیں‘ اپنے اپنے کام کرتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں‘ ایک بیٹا ان کے ساتھ رہتا ہے لیکن وہ بھی اکثر دورے پر ہوتا ہے چناں چہ شکور صاحب اپنی بیگم کے ہاتھوں کے پکے کھانے کھاتے ہیں اور ان کی تعریف کر کے دن گزار دیتے ہیں‘ یہ 86 سال کی عمر میں مجھے کمپنی دینے کے لیے نیویارک آ جاتے تھے اور میں ان کے ساتھ یونین اسکوائر میں بیٹھ کر ان کی زندگی کے سبق سنتا رہتا تھا‘ اس دوران دو اور پاکستانی خاندانوں سے بھی ملاقات ہوئی‘ سید وسیم مہدی گجرات کے رہنے والے ہیں‘ ریڈیو پاکستان میں انجینئر تھے‘ 1990ء کی دہائی میں امریکا آئے اور بڑی محنت سے اپنا مقام بنایا‘ یہ نیوجرسی کے ٹاؤن ’’اوشن‘‘ میں رہتے ہیں‘ ان کا گھر بہت خوب صورت مقام پر ہے‘ پورے علاقے میں ہرن پھرتے رہتے ہیں۔

ان کے بچے بھی اپنے اپنے کام کر رہے ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں‘ یہ دونوں میاں بیوی بھی اکیلے ہیں‘ مہدی صاحب ہمارے ساتھ سفر کرتے رہتے ہیں‘ یہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھے زبردستی اپنے گھر لے گئے‘ مجھے ایک رات ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا‘ دونوں میاں بیوی نے جی جان سے خدمت کی‘ مہدی صاحب قدرتی بزنس مین ہیں‘ دنیا کے دھکے بھی کھاچکے ہیں چناں چہ میں نے ان کی کمپنی بہت انجوائے کی‘ انھوں نے مجھے پورا علاقہ دکھایا‘ ہم نیوجرسی کے ایڈونچر پارک بھی گئے‘ امریکا میں چھ بڑے ایڈونچر پارکس ہیں‘ یہ 6 فلیگز (Flags) کہلاتے ہیں‘ ان میں سے ایک نیوجرسی میں ہے‘ اس کے تین حصے ہیں‘ واٹر پارک‘ سفاری اور رائیڈز‘ واٹر پارک کے لیے ہمارے پاس کچھے نہیں تھے‘ دوسرا ہم دونوں فطرتاً پانی کے جانور نہیں ہیں لہٰذا ہم وہاں نہیں گئے‘ میں زندگی میں بے شمار رائیڈز بھی بھگتا چکا ہوں‘ پیچھے رہ گیا سفاری پارک‘ ہم نے اسے خوب انجوائے کیا‘ پارک کی انتظامیہ سفاری کے لیے لوگوں کو ٹرکوں میں بٹھا کر جنگل میں لے جاتی ہے جہاں مختلف قسم کے جانور کھلے پھر رہے ہوتے ہیں۔

وہاں ہر قسم کی بھینسیں بھی موجود تھیں‘ انھیں دیکھ کر جی خوش ہو گیا‘ واقعی بھینس اور گجروں کا آپس میں کوئی نہ کوئی کنکشن موجود ہے‘ میرے تیسرے ملاقاتی ایک کرسچین پاکستانی فیملی تھی‘ نوید سنی مجھے اکثر میسج کرتے رہتے تھے‘ یہ بھی اپنی بیگم کے ساتھ نیوجرسی میں رہتے ہیں‘ میں نے انھیں بھی اسٹریٹ 14 بلا لیا‘ یہ اپنی بیگم مونا کے ساتھ تشریف لائے‘ دونوں بہت شان دار ہیں‘ نوید صاحب لاہور سے تعلق رکھتے ہیں‘ بڑی مشکل سے یورپ پہنچے‘ اسپین میں کام کرتے رہے اور وہاں سے امریکا آ گئے‘ یہ خاندان کے واحد کفیل تھے‘ یہ اپنے بہن بھائیوں کو امریکا لے کر آئے‘ ان کی شادیاں کیں اور انھیں اپنے اپنے گھروں میں آباد کیا‘ ان کی بیگم نے بھی اپنے خاندان کے لیے بے تحاشا قربانیاں دیں‘ یہ لوگ ذمے داریوں کی وجہ سے بچے کی نعمت سے بھی محروم رہے لیکن یہ اب بڑی جدوجہد کے بعد اپنی فیملی اسٹارٹ کر رہے ہیں‘ نوید صاحب انشورنس میں کام کرتے ہیں جب کہ ان کی بیگم بیوٹیشن ہیں‘ دونوں میاں بیوی بہت اچھے ہیں‘ مجھے ان کے ساتھ ڈنر کا موقع بھی ملا اور ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سننے کا بھی‘ یہ مجھے جیکسن ہائیٹس کے علاقے میں بھی لے کر گئے۔

یہ نیویارک کا راجہ بازار ہے‘ پورے علاقے میں دیسی آباد ہیں‘ ہر طرف بنگالی‘ انڈین‘ پاکستانی اور سری لنکن دکھائی دیتے ہیں چناں چہ وہاں دیسی قسم کی ہڑبونگ‘ افراتفری اور بدنظمی تھی‘ وہاں قلفی بھی بک رہی تھی اور پان بھی اور فٹ پاتھ پر ریڑھیاں بھی تھیں‘ درجنوں کی تعداد میں دیسی گروسری کے اسٹور اور ریستوران تھے‘ جیکسن ہائیٹس میں ایسے ایسے لوگ موجود تھے جنھیں دیکھ کر فوراً خیال آتا ہے ’’تم لوگوں کو امریکا میں گھسنے کس نے دیا تھا؟‘‘ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنھیں انگریزی کا ایک فقرہ نہیں آتا تھا اور انھوں نے زندگی میں کبھی پتلون نہیں پہنی تھی‘ یہ امریکا آئے اور اس کے بعد کبھی جیکسن ہائیٹس سے باہر نہیں نکلے‘ مجھے اسی قسم کا دوسرا علاقہ ایڈیسن میں دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ایڈیسن نیوجرسی کا درمیانے سائز کا ٹاؤن ہے‘ یہ مشہور سائنس دان اور بزنس مین ایڈیسن سے منسوب ہے‘ وہ اسی ٹاؤن میں رہتا تھا‘ اس کی لیبارٹری اور گھر بھی وہیں تھا‘ مجھے 2017ء میں اس کی لیبارٹری‘ لائبریری اور گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا‘ آج کل ایڈیسن ٹاؤن دیسی لوگوں کی یلغار کا شکار ہے چناں چہ آپ کو یہاں انڈین بھی ملتے ہیں‘ سکھ بھی‘ پاکستانی بھی‘ بنگالی بھی اور سری لنکن بھی‘ شہر میں دوپٹے‘ شلواریں‘ داڑھیاں اور ننگے ٹخنے عام ہیں تاہم یہ لوگ جیکسن ہائیٹس سے بہتر ہیں‘ اس کی وجہ تعلیم ہے‘ یہاں نسبتاً پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ گروسری اسٹورز پر پاکستان اور انڈیا کی ہر پراڈکٹ مل جاتی ہے‘ صرف گڑ 14 قسم کا تھا‘ بھنڈی اور دس قسم کے کدو بھی تھے‘بٹ کڑاہی جیسے دیسی ریستورانوں کی بھرماربھی تھی‘ مجھے پتا چلا دیسی آبادی کی وجہ سے گورے شہر سے فرار ہو چکے ہیں لہٰذا اب آپ کو شہر میں کوئی گورا دکھائی نہیں دیتا اور اگر ہو بھی تو اس کا تعلق مشرقی یورپ سے ہو گا اور وہ بھی دیسی آبادی کی طرح پناہ گزین ہو گا‘ ریستورانوں اور دکانوں کے عملے کی انگریزی ڈیڑھ دو فقروں کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور یہ اس کے بعد پنجابی میں پوچھتے ہیں ’’بھا جی تساں نوں کی چائی دا اے‘‘۔

میں 2017 میں امریکا آیا تھا تو یہ اس وقت بہت غریب پرور ملک ہوتا تھا‘ مہنگائی نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ یورپ اور برطانیہ کے مقابلے میں ہر چیز سستی تھی‘ گروسری‘ کھانا‘ ایئر ٹکٹس‘ ہوٹلز اور ریستوران بھی یورپ کے مقابلے میں سستے تھے لیکن 2024 میں امریکا میں ہر چیز مہنگی اور مشکل ہو چکی ہے‘ آج سے پانچ سال پہلے تک آپ کو ایئرپورٹ پر ٹرالی ایک ڈالر میں ملتی تھی جب کہ اس بار سامان کے لیے ٹرالی بھی 6 ڈالر میں ملی‘ ٹرینوں اور بسوں کے کرائے بھی بڑھ چکے ہیں اور کھانا اور کپڑے بھی مہنگے ہیں‘ اس کی وجہ ریسیشن ہے‘ پراپرٹی بہت مہنگی ہے‘ وہ گھر جو دو سال پہلے تک ڈیڑھ دو لاکھ ڈالر میں ملتا تھا اب اس کی قیمت چھ سات لاکھ ڈالر ہو چکی ہے‘ مکانوں اور دکانوں کے کرائے بھی زیادہ ہیں‘ نیو یارک کے ٹیکس بھی بڑھ چکے ہیں‘ میں نے پہلی مرتبہ امریکیوں کے چہروں پر فکر اور تشویش دیکھی‘ پارکنگ کے ریٹس بھی بڑھ چکے ہیں‘ بے روزگاری میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ رہی سہی کسر ڈونلڈ ٹرمپ پوری کر رہا ہے۔

اس نے معاشرے کومزید تقسیم کر دیا ہے‘ گورے اور کلرڈ۔ یہ گوروں کا لیڈر بن چکا ہے اور اس کی ہر تقریر میں دوسری قومیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے نفرت پائی جاتی ہے لہٰذا جوں جوں الیکشن قریب ہوتا جا رہا ہے لوگوں میں ٹینشن اور اینگزائٹی بڑھتی چلی جا رہی ہے‘ مسلمانوں اور پناہ گزینوں کا خیال ہے اگر ٹرمپ صدر بن گیا تو پھر امریکا ہمارے لیے غیرمحفوظ ہو جائے گا‘امریکی ہمیں جینے نہیں دیں گے‘ ٹرمپ تقریباً عمران خان کا بھائی ہے جس طرح عمران خان نے پاکستان کا توازن بگاڑ دیا بالکل اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکا کو غیرمتوازن کر دیا‘ یہاں بھی اب حقیقی آزادی کی دوڑ لگ چکی ہے اور امریکا میں جب تک مسلمان اور بھوری اور کالی نسلیں موجود ہیں اس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ کی حقیقی آزادی مکمل نہیں ہو سکتی اور ٹرمپ اس بار صدر بن کر امریکا کو حقیقی آزادی دلا کر رہیں گے اور اس کے بعد مسلمان اور پاکستانی واپس آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

نوٹ: اکتوبرمیں ہمارا گروپ مراکش جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

Back to top button