وائرل ویڈیو میں موجود لڑکے اور لڑکی نے شادی کر لی

https://youtu.be/BfDOZ7G5yag
اسلام آباد میں تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بننے والے لڑکے اور لڑکی نے شادی کر لی ہے۔ اس بات کا انکشاف کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس آفیسرز نے کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ لڑکا اور لڑکی منگیتر تھے اور لڑکی ایک امتحان دینے کے لئے اسلام آباد آئی تھی جسے ایک رات کے لیے لڑکے نے فلیٹ میں ٹھہرایا تھا جہاں ملزمان پہنچ گے۔
اسلام آباد پولیس بالآخر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے والے متاثرہ جوڑے تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملزمان سے ملنے والی مزید تفصیلات تفتیشی ٹیم کو اس دن کے واقعات کا پسِ منظر جاننے میں مدد کر رہی ہیں۔ 9 جولائی کو اسلام آباد کی ایک عدالت نے تمام ملزمان کو چار دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ اسلام آباد پولیس نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ کیس کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کی متاثرہ جوڑے اور ان کے خاندان سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بعد ایس پی عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ ‘اس واقعے میں ملوث حیوانی ذہنیت رکھنے والے افراد پولیس کی حراست میں ہیں اور یہ ہمارا اپنا مقدمہ ہے ہم اسے آخر دم تک لڑیں گے۔’
پولیس ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ متاثرہ لڑکا نے واقعے کے فوری بعد شادی کر لی تھی۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے متاثرہ جوڑے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کیونکہ مقدمے میں ان کے بیانات خاصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے لڑکے کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے اسے تفتیش کا حصہ بنا دیا ہے جبکہ متاثرہ لڑکی نے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کے کچھ کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم عثمان مرزا اور اس کے ساتھی ایک کمرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکی پر تشدد کرتے ہوئے انہیں بے لباس کر دیتے ہیں۔ ویڈیو میں ملزم لڑکے اور لڑکی کو گالیاں دیتے ہیں اور ان کے چہرے پر بار بار تھپڑ مارتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ کیس کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بتایا کہ لڑکی کسی دوسری شہر کی رہائشی ہے۔ وہ اس واقعے کے دن ایک امتحان دینے اسلام آباد آئی تھیں اور اپنے منگیتر سے شہر میں رہائش کا بندوبست کرنے کا کہا تھا۔ اہلکار کے مطابق متاثرہ لڑکے نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے ایک دوست سے فلیٹ ایک رات کے لیے کرائے پر لیا۔ اہلکار کے مطابق جب وہ دونوں فلیٹ پر پہنچے تو ملزم عثمان مرزا کا بھائی وہاں آیا اور فلیٹ کے اندر جانے کی کوشش کی۔ اس پر عثمان مرزا کے دوست نے اسے بتایا کہ اندر فیملی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اندر نہیں جا سکتے۔ پولیس اہلکار کے مطابق یہ سن کر ملزم کے بھائی نے عثمان مرزا کو فون کیا جو اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وہاں آ گیا اور لڑکے اور لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی۔
پولیس اہلکار کے مطابق اس بدسلوکی کی ویڈیو بنانے کے بعد ملزمان نے انھیں دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کسی سے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہ یہ ویڈیو وائرل کر دیں گے۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ قاضی جمیل الرحمٰن کے مطابق ملزم عثمان مرزا شادی شدہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں۔
9 جولائی کو جب ملزم عثمان مرزا اور اس کے دو ساتھیوں فرحان اور عطا الرحمن کو عدالت میں پیش کیا گیا تو مقدمے کے تفتیشی افسر نے کہا کہ انھیں ملزمان سے ڈیٹا حاصل کرنے کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی تفتیش کرنی ہے جس کے لیے ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ تاہم عثمان مرزا کے دونوں ساتھیوں کے کے وکلا نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ان کے موکلوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں کا اس فعل میں کوئی کردار نہیں بلکہ وہ عثمان مرزا کو ایسا کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس اس ویڈیو کے علاوہ اور کوئی مواد موجود نہیں ہے تو پھر ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ کیوں درکار ہے؟ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی اور شہادت سامنے نہیں آئی تو پھر ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے۔ تاہم جب وکلا نے نکتہ اٹھایا کہ یہ واقعہ تو ایک کمرے میں ہوا ہے تو پھر ملزمان کے خلاف درج مقدمے میں دفعہ 354 اے کا اضافہ کیوں کیا گیا جو کہ کسی کی عزت اچھالنے کے بارے میں ہے تو تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ‘ابھی ملزمان سے دفعہ 354 اے کے تحت ہی تو تفتیش ہونا باقی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی کی عزت کو تار تار کیا گیا اور اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ تو ایک کمرے میں ہوا ہے۔’
ملزمان کے وکلا نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر فرحان اور عطا الرحمن کسی ویڈیو میں اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے ساتھ اکھٹے فلیٹ میں جانے نظر آتے ہیں تو بے شک انھیں بھی مرکزی ملزم کے ساتھ سزا دیں لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ ان کے مطابق پلازے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے ان دونوں ملزمان کی فوٹیج حاصل کرلی جائیں تو حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا سے جو برآمد کرنا ہے، کر لیں لیکن باقی دو ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔ تاہم عدالت نے ملزمان کے وکلا کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا اور ان تیوں ملزمان کو چار دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
یاد رہے کہ اس معاملے کی بازگشت وزیراعظم ہاؤس تک گئی اور عمران خان نے آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمن سے ملاقات میں اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت سے وزار اعظم کو آگاہ کیا گیا۔
ایک بیان کے مطابق آئی جی اسلام آباد نے وزیر اعظم کو بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد مضبوط فوجداری کارروائی اور انھیں قرار واقعی سزا دلاوانے کے لیے وہ خود اس کیس کی نگرانی کر رہے ہیں اور مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے تمام تکنیکی وسائل برؤئے کار لائے جا رہے ہیں۔ یاد رہے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے دارالحکومت کی پولیس کو اس کی جلد از جلد تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسلام آباد پولیس نے اس معاملے میں تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔ پولیس کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکار ان اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں گے جن سے یہ ویڈیو فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی۔ مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بتایا کہ ملزمان کے زیر استعمال موبائل فونز کو فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔