وبا کم ہوتے ہی پاکستان سے انسانی سمگلنگ میں تیزی


نامساعد معاشی حالات سے تنگ آ کر اپنی غربت مٹانے کے لیے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں کرونا وبا آنے کے بعد تیزی سےکمی آئی تھی لیکن اب پاکستان میں کرونا کی وبا میں کمی آتے ہی ایک بار پھر انسانی سمگلنگ نے زور پکڑ لیا ہے۔
یاد رہے کہ کرونا وباکے دوران مختلف ممالک کی سرحدوں پر عائد سخت پابندیوں کی وجہ سے پاکستان سے انسانی سمگلنگ مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ تاہم اب پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں سرحدی پابندیوں میں نرمی کے بعد انسانی اسمگلنگ میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان میں کرونا کیسز کم ہونے اور سرحدیں کھلنے کے بعد ایجنٹ مافیا بھی سرگرم ہو گیا ہے اور نوجوانوں کو سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر غیر قانونی طریقوں سے سرحد پار کروانے کا دھنفہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ ان حالات میں تازہ اطلاعات کے مطابق سرحدیں عبور کرتے ہوئے اکثر نوجوان گرفتار جبکہ کئی افراد سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان سے یورپ جانے کے خواہشمند نوجوان انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ کر جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے مختلف ممالک کی سرحدیں غیر قانونی طریقے سے عبور کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی آئی او ایم کی رپورٹ برائے 2019 کے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا سب سے عام اور معروف زمینی راستے کو ‘ایسٹرن میڈیٹرینئن روٹ’ کہا جاتا ہے جسے زیادہ تر پاکستان انسانی سمگلر یورپ تک جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ روٹ افغانستان، پاکستان، ایران، ترکی اور یونان کو جوڑتا ہے۔ یورپ جانے کے خواہشمند بیشتر پاکستانی افراد دھوکہ دہی سے حاصل کردہ جعلی دستاویزات، بعض اوقات حقیقی دستاویزات اور چند مقامات پر چھپ چھپا کر سفر کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس روٹ کے ذریعے انسانوں کی سمگلنگ کرنے والے گروہ انتہائی منظم اور آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ آئی او ایم کی رپورٹ کے انسانی سمگلر پاکستان سے بذریعہ ایران، ترکی اور پھر یونان تک پہنچانے کی قیمت چار ہزار امریکی ڈالرز تک وصول کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک سروے میں یہ بھی کہا گیا کہ چند افراد نے اس زمینی سفر کی قیمت پانچ ہزار ڈالرز سے بھی زائد کی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان سے غیرقانونی طور پر ایران داخل ہونے کا معروف راستہ بلوچستان کا سرحدی علاقہ ‘منڈ بوللو’ ہے جہاں سے ایران داخل ہوا جاتا ہے۔ہر سال یورپ پہنچنے کی کوشش میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات سامنے آتےرہتے ہیں
ایف آئی اے حکام کے مطابق جب کرونا کے حوالے سے سخت پابندیاں تھی تو زمینی راستے سے غیر قانونی طور بیرونی ممالک جانے والے افراد کی تعداد لگ بھگ صفر ہوگئی تھی لیکن جونہی کرونا کے حوالے سے سفری پابندیوں میں نرمی ہوئی ہے تو ایک مرتبہ پھر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوششوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ صرف جولائی 2020 کے مہینے میں غیر قانونی طور پر ایران داخل ہونے والے 263 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 14 سہولت کاروں کی گرفتاری اس کے علاوہ ہے۔
ذرائع کے مطابق زمینی راستے سے پاکستان سے غیر قانونی طور بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والوں کو سب سے پہلے انسانی اسمگلر ایران لے جاتے ہیں۔ ایران کے بعد وہ ترکی پہنچتے ہیں جبکہ ترکی سے یونان میں داخل ہوکر یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔چونکہ ایران کے ساتھ بلوچستان کے پانچ اضلاع کی ساڑھے نو سو کلومیٹر سے زائد کی سرحد لگتی ہے اس لیے انسانی سمگلر انھیں ان اضلاع سے ایران میں داخل کراتے ہیں۔ ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔ایران سے متصل ان پانچ اضلاع کے سرحدی علاقے انتہائی دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہیں اس لیے نگرانی بہت زیادہ مشکل ہونے کے باعث وہ ان راستوں سے پہلے ان کو ایران میں داخل کراتے ہیں۔پانچ چھ سال قبل غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی اکثریت کو مکران ڈویژن کے دو اضلاع کیچ اور گوادر سے ایران لے جایا جاتا تھا۔یہ افراد پہلے کراچی میں جمع ہوتے تھے جہاں سے گاڑیوں کے ذریعے کیچ اور گوادر کے سرحدی علاقوں سے ان کو ایران میں داخل کرایا جاتا تھا۔لیکن اب انسانی سمگلروں نے اس روٹ کی بجائے کوئٹہ تفتان روٹ کو زیادہ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے والے روٹ کی بجائے کوئٹہ تفتان روٹ پر زیادہ انحصار کی شاید ایک بڑی وجہ کیچ اور اس سے متصل علاقوں میں ہونے والے وہ حملے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب چاغی میں لانے کے بعد ان افراد کو چاغی سے متصل واشک کے علاقے ماشکیل اور اس سے جڑے ضلع پنجگور کے سرحدی علاقوں سے ایران پہنچایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ ضلع کیچ اوراس سے متصل بعض علاقے شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔ چند سال قبل ضلع کیچ کے سرحدی علاقوں سے غیر قانونی طور پر ایران جانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہونے والے حملوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ایف آئی کے حکام کے مطابق ان افراد کا زیادہ تر پنجاب سے ہوتا ہے لیکن غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والوں میں خیبر پختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاوہ افغانستان کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق جب تک پنجاب میں انسانی سمگلروں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت تک انسانی سمگلنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ افغانستان سے بھی جو لوگ غیر قانونی طور پر یورپی ممالک یا ایران جانا چاہتے ہیں ان کو بھی انسانی سمگلر بلوچستان کے راستوں سے لے جاتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپ تک کا زمینی راستوں سے یہ سفر نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ زندگی کو داﺅ پر لگانے والا سفر ہوتا ہے۔غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کے لیے اس مشکل آغاز کوئٹہ یا کسی اور علاقے سے ایرانی سرحدی علاقوں کے لیے سفر کے ساتھ شروع ہوتا ہے لیکن اصل مشکل کا سامنا ایران سے متصل سرحدی علاقوں میں اور اسکے بعد کرنا پڑتا ہے۔کوئٹہ سے ایران تک سفر کے دوران ان افراد کی ایک بڑی تعداد کی گرفتاری بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ ہوتی ہے ۔ بلوچستان کے بعد ایرانی حدود میں آنے والے سرحدی علاقے نہ صرف دشوار گزار ہوتے ہیں بلکہ ایرانی سرحدی فورسز کے اہلکار غیر قانونی طور پر داخل ہونے والی گاڑیوں اور لوگوں پر فائرنگ بھی کرتے ہیں جس میں بعض لوگ ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔چونکہ ان افراد کو ایران میں ایک بڑے علاقے سے گزرنا ہوتا ہے اس لیے ان کی ایک بہت بڑی تعداد کی ایرانی سیکورٹی فورسز کی ہاتھوں گرفتاری بھی عمل میں آتی ہے۔ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ یہی وجہ ہے آئے روز ایرانی حکام ان افراد کو بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان میں سرحدی حکام کے حوالے کرتے رہتے ہیں۔ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ ایسے لوگ جو پاکستان میں گرفتار ہوتے ہیں یا ایران میں گرفتار ہونے کے بعد ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں ان کی اوسطاً سالانہ تعداد 20ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ ایف آئی کے اہلکار کا کہنا تھاکہ جس طرح پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے دشوار گزار ہیں اسی طرح ایران اور ترکی کے سرحدی علاقے بھی انتہائی دشوارگزار ہونے کے ساتھ سردیوں میں برف سے بھی ڈھکے رہتے ہیں۔اہلکار کے مطابق ان علاقوں میں کبھی کبھار پھنس جانے کی وجہ سے متعدد افراد کی موت بھی واقع ہوتی ہے جن کو انہی علاقوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح ان لوگوں کو ترکی اور یونان کے سرحدی علاقوں میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ مشکلات کے باوجود بہت سارے لوگ ان راستوں سے یورپ پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں ایک بہت بڑی تعداد کو گرفتاریوں کا سامنا کرنے کے علاوہ جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے کیونکہ انھیں ایک بہت بڑی رقم انسانی اسمگلروں کو ایڈوانس دینا ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button