وزیر صحت سمیت مودی کابینہ کے 12 وزرا مستعفی
بھارت میں رواں سال کورونا وائرس کے کیسز میں تباہ کن حد تک اضافے کے بعد وزیر صحت سمیت نریندر مودی کی کابینہ کے 12 وزرا مستعفی ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس استعفے کے نتیجے میں 2022 میں 7 ریاستوں میں انتخابات سے قبل بھارتی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور توسیع کی گئی ہیں۔
66سالہ وزیر صحت ہرش وردھن کو اپریل اور مئی میں کیسز میں بے انتہا اضافے کے باعث شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر وائرس کی نئی لہر سے آگاہ نہ کرنے اور پابندیوں میں قبل از وقت نرمی برتنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
بھارت میں بڑھتے کیسز کے باعث ہسپتالوں اور صحت کے مراکز پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور کئی شہروں اور علاقوں میں ہسپتالوں میں بستر، ادویات اور آکسیجن ختم ہو گئی ہے۔
وبا کی دوسری لہر کی آمد سے قبل ہرش وردھن نے کہا تھا کہ بھارت میں وبا ختم ہونے والی ہے۔
بھارت میں مارچ کے اختتام تک ایک لاکھ 60ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور اب تک کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 4لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں تین درجن نئے چہرے شامل کیے گئے ہیں جس کے بعد وزرا کی تعداد 52 سے بڑھ کر 77 ہو گئی ہے۔
ان میں سے ایک درجن سے زائد وزرا کا تعلق اترپردیش اور گجرات سمیت ان ریاستوں سے ہے جہاں انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ ریاستیں مختلف، ذات اور برادریوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔
میڈیا ادارے کے کروڑ پتی مالک راجیو چندر شیکھر اور شوبھا کراندلاجی سمیت چار اراکین کا تعلق جنوبی ریاست کرناٹک سے ہے۔
شوبھا کے خلاف مبینہ طور پر مسلمان مخالف بیانات پر مختلف تھانوں میں متعدد مقدمات بھی درج ہیں۔
شوبھا کے علاوہ مزید 6 خواتین کو نئی کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تاہم مستعفی ہونے والوں میں حیران کن طور پر وزیر قانون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شنکر پرساد اور وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جوادیکر بھی شامل ہیں کیونکہ ان دونوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا نیا چہرہ تصور کیا جاتا تھا کیونکہ کچھ رپورٹس کے مطابق یہ دونوں ریاستی انتخابات میں پارٹی کے اہم امور اور مہم سنبھال رہے تھے۔
بھارت کی سات ریاستوں میں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں جن میں اترپردیش، پنجاب اور گجرات سمیت 6 میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے۔
رواں سال کے اوائل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس وقت شدید دھچکا لگا تھا جب انہیں مغربی بنگال میں ریاستی انتخابات میں اقتدار کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ ملک بھر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی گرتی ہوئی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے البتہ آسام میں حکمران جماعت اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔