وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ کے ججوں پر ایک بڑا حملہ

وفاقی حکومت قاضی فائز عیسی کیس کے فیصلے کے خلاف کیوریٹیو اپیل دائر کرتے ہوئے پوری عدلیہ پر ہی حملہ آور ہو گئی ہے اور یہ الزام لگا دیا ہے کہ 26 اپریل 2021 کے سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے غیر قانونی اور غیر آئینی اکثریتی فیصلے نے ججوں کے احتساب کے دروازے بند کر دیے ہیں اور انہیں عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کر دی ہے۔ اپنی اپیل میں وفاقی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ کیس کا فیصلہ غلط اور ناانصافی پر مبنی تھا۔
کپتان حکومت نے عدالت عظمیٰ سے کہا ہے ہے کہ جسٹس قاضی فائز نظر ثانی کیس میں 26 اپریل 2021 کا اکثریتی فیصلہ صریحاً ناانصافی پر مبنی ہے اور عوام اور مفاد عامہ کے خلاف ہے جس سے عدالتی احتساب کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ حکومت نے عدالت عظمیٰ سے اس خلا کو پرُ کرنے کرنے کے لیے 10 رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومتی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف 8 جولائی کو ایک نئی اپیل دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ غلط، انصاف کی خلاف ورزی اور تعصب پر مبنی ہے اور غیر قانونی، غیر آئینی اور بغیر کسی دائرہ اختیار کے ہے’۔ خیال رہے کہ 26 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے 4 کے مقابلے میں 6 ججوں کی اکثریت سے سے اپنے 19 جون 2020 کے اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادوں کی تفتیش کرنے کا کا حکم دیا گیا تھا۔
اپنی اپیل میں وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ وہ نظرثانی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرے۔
یہ اپیل سیکریٹری قانون کے توسط سے صدر عارف علوی، وفاقی حکومت، وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور اثاثوں کی ریکوری یونٹ کے قانونی ماہر ضیا المصطفیٰ کی جانب سے دائر کی گئی۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ 26 اپریل 2021 کے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے بند کردیے ہیں اور ریکارڈ میں آنے والے الزامات اور معلومات کے سلسلے میں جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کا احتساب عدالتی آزادی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ حکومتی اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کردیا ہے جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو صرف عدالتی احتساب سے بچنے کے لیے عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت 2023 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی اور اسی لیے وہ مسلسل ایسی کوششوں میں مصروف ہے جن سے سینئر ترین جج کو فارغ کروایا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر صدر عارف علوی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر کردہ نااہلی ریفرنس بھی انہی حکومتی کوششوں کی ایک کڑی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
وفاقی حکومت نے جسٹس فائز عیسی کیس میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا، تاہم اب حکومت نے ایک کیوریٹیو اپیل دائر کی ہے حالانکہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا یہ موقف ہے کہ ایک ہی کیس میں دو مرتبہ نظر ثانی کی اپیل دائر نہیں کی جاسکتی۔ اپنی اپیل میں کپتان حکومت نے کہا ہے کہ عدالتی آزادی کا تصور بنیادی طور پر انفرادی ججز کے مفاد کے لیے نہیں ہے بلکہ جج کے مفاد اور پورے معاشرے کے مفادات، حقوق اور فوائد کے حصول کے لیے ہے۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ سپریما کورٹ کا اکثریتی فیصلہ اسلامی اور جدید قانونی اصول کے بھی خلاف ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے لیے ضابطہ اخلاق میں جو اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا تصور دیا گیا اس کے بھی خلاف ہے۔
حکومی اپیل میں سرکاری ملازمین، عہدیداران، ججز، قاضیوں کے قریبی رشتہ داروں مثلاً ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کی جائیدادوں پر سوال اٹھانے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے میں جج کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں اور مالی معاملات کی جانچ پڑتال سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو کہ غیر آئینی عمل ہے۔
حکومت نے اپیل میں دعویٰ کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر لندن میں تین جائیدادیں حاصل کرنے کے لیے ذرائع کے حوالے سے کوئی جواز پیش نہیں کر سکے ہیں۔
حکومت نے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے غیر ملکی کرنسی بینک اکاؤنٹ سے کافی حد تک منسلک تھے، جس کے ذریعے لندن کی جائیدادوں کو مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ سرینا عیسی اس کیس کی سماعت کے دوران ایسے تمام الزامات کو سختی سے رد کر چکے ہیں۔