ٹرمپ نے کے الیکٹرک کے مالک عارف نقوی کو کیوں تباہ کیا؟

عالمی سرمایہ کار ابراج گروپ اور اسکے پاکستانی سربراہ عارف نقوی کے حوالے سے برطانیہ میں چھپنے والی ایک نئی کتاب میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے چین سے مخاصمت کے باعث کراچی الیکٹرک کی چینی ادارے شنگھائی الیکٹرک کو فروخت روکنے کے لیے ابراج گروپ کے خلاف ایک منظم سازش کی۔ امریکی انویسٹرز اور تب کی امریکی انتظامیہ اور وال سٹریٹ جرنل کے مبینہ گٹھ جوڑ کے باعث نہ صرف ابراج گروپ زوال کا شکار ہو گیا بلکہ 2019 میں نقوی کو برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا اور اب امریکی حکومت انہیں اپنے ملک لیجا کر مقدمہ چلانے کے لئے پرتول رہی ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں میٹروپولیٹن پولیس نے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کو سرمایہ کاروں سے دھوکہ دہی کے الزام میں 12 اپریل 2019 کو لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ سے گرفتار کیا تھا۔ عمران خان کے قریبی دوست سمجھے جانے والے عارف نقوی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے سب سے بڑے شراکت دار رہے ہیں۔ دو سال قبل عارف نقوی کے ساتھی عبدالودود کو بھی امریکہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں پراسیکیوٹرز نے الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ہزاروں ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا غلط استعمال کیا۔ امریکہ کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت پر یہ کارروائی کی گئی ہے۔ عارف نقوی اپنے خلاف الزامات کی تردید کر چکے ہیں کہ انھوں نے ابراج ایکوٹی سےفنڈز کو ٹرانسفر کر کےکوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔ امریکی حکومت ایکویٹی فرم بیٹھ جانے کے سلسلے میں لندن سے ان کی حوالگی چاہتی ہے تاہم ابھی تک برطانیہ انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے انکاری ہے۔ برطانوی حکومت کے کنسلٹنٹ اور ماہر تعلیم پروفیسر بریواٹی نے عارف نقوی سے انٹرویو کرنے اور ابراج گروپ سے جڑے تنازعات پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سابق امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انویسٹرز اور میڈیا کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ کرکے ابراج گروپ اور عارف نقوی کو مالی مشکلات سے دوچار کیا۔ اس مبینہ سازش کا بڑا مقصد اس گروپ کی ملکیتی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی یعنی کے الیکٹرک کی چین کے ادارے شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کی کوشش ناکام بنانا تھا۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے کھلے دشمن جانے جاتے ہیں۔ چین دشمنی میں ٹرمپ کے مبینہ اقدامات سے عالمی سطح کا ایک بڑا انویسٹر گروپ ابراج اپنی بقا کی جنگ لڑی رہا ہے جبکہ اس سے منسلک پاکستانی شخصیت عارف نقوی اسوقت برطانیہ میں مقدمات بھگت رہے ہیں جبکہ امریکہ بھی ان کی حوالگی کے لیے کوشاں ہے۔
خیال رہے کہ عارف نقوی 1960 میں کراچی کے ایک متوسط طبقے میں پیدا ہوئے، انھوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سےگریجوئیشن کی، جس کے بعد کراچی میں امریکن ایکسپریس سے منسلک ہوگئے۔ 1994 میں عارف نقوی نے 50 ہزار امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے دبئی میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے پہلے دبئی میں کپولا کے نام سے کمپنی بنائی اور اس کے ساتھ ابراج کے نام سے سرمایہ کار گروپ قائم کیا جو ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سرمایہ کاری کرنے والا پہلا گروپ تھا۔ 2016 میں ابراج نے کریم کار میں بھی سرمایہ کاری کی اور دو سال کے بعد وہاں سے سرمایہ نکال لیا۔
چند سال پہلے تک ابراج گروپ مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار گروپ تھا۔ 2002 میں قائم اس گروپ کے 25 ممالک کے ساتھ ساتھ دبئی، استنبول، میکسیکو سٹی، ممبئی، نیروبی اور سنگاپور میں ریجنل دفاتر تھے۔ پوری دنیا میں گروپ کی 17 سرب ڈالر کی سرمایہ کاری تھی جس میں سنہ2017 کے اختتام تک کمی آتی گئی اور یہ 3 عشاریہ 8 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور اس کی وجہ سرمایہ کاروں کی بےاعتمادی بنی جن میں عالمی بینک اور بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔ دونوں اداروں نے بھارت، پاکستان اور نائیجریا میں سکول اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے، عارف نقوی پر الزام ہے کہ دونوں اداروں کے فنڈ ابراج گروپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے جس کے بعد عارف نقوی کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دیئے گئے اور سرمایہ کاروں کو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ ابراج گروپ اور عارف نقوی سے متعلق پروفیسر بریواٹی کی کتاب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ فنڈز کی خرد برد کا الزام یکسر بے بنیاد ہے کیونکہ عارف نقوی نے برطانیہ کے قانونی ماہرین کے مشورے سے تمام مالیاتی امور انجام دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ ابراج گروپ نے 2009 میں 1.4 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے کے الیکٹرک کے اکثریتی شیئر خرید کر انتظامی اختیار حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے سب سے گنجان آبادی والے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے اس ادارے کے 25 لاکھ صارفین ہیں اور یہ ادارہ نہ صرف بجلی کی پیداوار کرتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی اور منتقلی بھی اسی کے ذمے ہے۔ ابراج گروپ نے جب کے الیکٹرک کا انتظام سنبھالا تو کراچی کو بجلی کے بحران کا سامنا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ابراج گروپ جب مالی بحران کا شکار ہوا، تو ان ہی دنوں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گروپ اپنے 66 فیصد شیئر ایک ارب 70 کروڑ ڈالر میں چین کی شنگھائی الیکٹرک کمپنی کو فروخت کرنا چاہتا تھا، جسکی کوششیں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت یعنی 2013 سے جاری ہیں۔
پروفیسر بریواٹی نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ وال سٹریٹ جرنل دراصل امریکی حکومت کے ایما پر مسلسل ابراج گروپ کے میڈیا ٹرائل میں مصروف ہے۔ 2019 میں نقوی کی گرفتاری سے قبل وزیر اعظم عمران خان اور شنگھائی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ میں ملاقات ہوچکی ہے جس میں عارف نقوی بھی شریک تھے۔ کے الیکٹرک کو فروخت کرنے سے قبل کمپنی کو نجکاری کمیشن سے نیشنل سکیورٹی سرٹیفیکیٹ مطلوب ہے جبکہ مختلف سرکاری محکموں کے کمپنی پر واجبات بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ امریکی انتظامیہ کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کے ہاتھوں میں جاتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اسی لئے حکومت پاکستان نے اس ڈیل کو ناکام کرنے میں کردار ادا کیا۔
پروفیسر برائن بریواٹی کی ابراج گروپ اور عارف نقوی پر لکھی کتاب بہت جلد پاکستان میں بھی دستیاب ہوگی۔ لندن کی کنگسٹن یونیورسیٹی کے وزیٹنگ پروفیسر پروفیسر برائن بریواٹی نے دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ابراج گروپ : عارف نقوی، اے کی مین اور دی فال گائے‘‘ کے عنوان سےجو کتاب لکھی ہے، اسے لندن میں واقع بائٹ بیک پبلشنگ نے شائع کیا ہے۔