ٹرین حادثہ: وفاقی وزرا مجھ پر الزام تراشی کے بجائے اپنی کارکردگی بتائیں

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے ڈہرکی ٹرین حادثے کا ذمہ دار قرار دیے جانے پر سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے فواد چوھری کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے کرتوتوں کا جائزہ لیں اور ریلوے کا پیسہ کہاں جاتا ہے، اب رسیدیں آپ کو نکالنی ہیں۔
ڈہرکی ٹرین حادثے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں کی تنقید پر لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں نے جب ریلوے چھوڑا تھا وہ کما کر دینے والا ادارہ تھا اور اب ان کی حکومت میں کتنی کمائی ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ اب کورونا کے پیچھے نہیں چھپنا، کرپش کرپشن کا شور مچا کر نہیں چھپنا کیونکہ میں ثبوت کے ساتھ بات کروں گا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا آخری ترقیاتی بجٹ 40 ارب روپے تھا جبکہ ان کا 17 یا 18 ارب بجٹ ہے اور انہوں نے بجٹ میں 65 فیصد کٹ لگایا، مینٹینینس کے کئی ہیڈ ہیں اور ہر ایک پر بے پناہ کٹ لگایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ مینٹیننس کے لیے پیسہ نہیں ہے تو مینٹیننس کیسے ہوگی، جہاں آج حادثہ ہوا ہے، یہ ٹنڈو آدم روہڑی اور خان پور سیکشن کہلاتی ہے، 456 کلومیٹر اس کی اسٹرینتھ ہے اور اس کے سب سیکشن روہڑی خان پور پر حادثہ ہوا ہے۔
سابق وزیر ریلوے نے کہا کہ حادثہ اس لیے ہوتا ہے کہ مینٹیننس نہیں ہوتی، ابھی ریلوے کا شعبہ ایف جی آئی آر حقائق سامنے لائے گا جس میں کچھ دن لگیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک تو یہ ہے مینٹیننس کے لیے پیسے نہیں ہیں، لوکوموٹیو رل رہے ہیں اور کچھ کو آپ نے لاک کردیا ہے، چینی لوکوموٹیو کو بلور صاحب نے منگوایا تھا اور 15 فیصد ڈاؤن پیمنٹ بھی ان کے دور میں ہوئی تھی، ہم نے وصول کیے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مینٹیننس کا ایک شیڈول بنایا تھا، ہر لوکوموٹیو کا ایک شیڈول ہے، چینی لوکوموٹیو کی مینٹیننس ہوگی، ہم نے فیصل آباد میں امریکی لوکوموٹیو لیا تھا جو بہترین مشین ہے جس کو ہم پاکستان لے آئے لیکن یہ جھوٹا شخص اس پر بے بنیاد الزامات لگاتا رہا لیکن دنیا میں ایسی کوئی مشین نہیں ہے جو مینٹیننس کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ کون کہتا ہے کہ انگریز کے دور کا بنا ہوا ہے، جو جھوٹا وزیرداخلہ بنا ہوا ہے آج کل، کوئی اس کو بتائے کہ یہ ٹریک 1978 یا 1979 میں شروع ہوا تھا اور 1985 تک تقریباً مکمل ہوا تھا جو 30، 35 سال پرانا ہوگا۔جائے حادثے کے ٹریک کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے سلیپرز کنکریٹ کے بنے ہوئے ہیں جو جدید ہیں اور اس کے فاسٹننگ امپورٹڈ ہے۔
حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب آپ سے ٹریک اور نہ ہی رولنگ اسٹاک چل رہا ہے تو میرا قصور ہے، ہم نے ساتھ میں بزنس پلان دیا تھا اس کو بھی تبادہ کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس حادثے کی بنیادی وجہ ٹریک کی مینٹیننس نہ ہونا ہے، دوسری بات رولنگ اسٹاک کی مینٹیننس نہیں ہوتی، ہر کوچ مینٹیننس مانگتی ہے لیکن اس کام پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ریلوے کی ساری قانونی لڑائی ہم نے لڑی، الزامات لگائے گئے، رائل پام کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تو یہ ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا رہے تھے لیکن ڈیڑھ دو سال ہوگئے ابھی تک رائل پام کی ٹینڈرنگ نہیں ہوئی اور اس ایک جگہ سے کروڑوں کا نقصان کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 11 نئے ریلوے اسٹیشنز بنائے تھے، ہر جگہ کمرشل ایریا ہے لیکن تین سال میں ایک دکان لیز نہیں کی گئی، اس مد میں ریلوے کو کروڑوں روپے کا چونا لگ رہا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وزیر اطلاعات صاحب اپنے کرتوتوں کا جائزہ لیں، ریلوے کو آپ لوگوں نے تباہ کردیا ہے، ہمارے دور میں لوگوں کے واجبات وقت پر ادا ہوتے تھے لیکن اب لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیسے کہاں جاتے ہیں، جو پیسے ملتے ہیں وہ کہاں ہیں؟ جواب دیں، اب رسیدیں آپ نے نکالنی ہیں، لوگوں پر نہ ڈالیں۔ان کا کہنا تھا کہ ریلوے قومی ادارہ ہے اس پر تو سیاست نہ کی جائے۔
سابق وزیر ریلوے نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے 70 لوگ شہید ہوئے اور جھوٹ بولا گیا کہ سلینڈر سے آگ لگی حالانکہ تین کوچز الگ الگ ہیں لیکن کیا ممکن ہے کہ ایک کوچ کو آگ لگے تو دیگر کو بھی وہی پکڑے، یہ شارٹ سرکٹ تھا جو بعد میں تفتیش سے ثابت ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ 70 بے گناہ پاک باز انسانوں کی لاشوں پر یہ جھوٹ بول رہے تھے تو آپ پر کون یقین کرے گا۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آپ تو استعفیٰ مانگا کرتے تھے، لودھراں حادثے پر عمران خان وہاں پہنچ گئے تھے کہ استعفیٰ دے دو اور اپنی دفعہ استعفیٰ لینا یاد نہیں رہتا، اپنی دفعہ آنکھیں، کان اور منہ بھی بند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے لیے جہانگیر ترین کی تفتیش کرنی ہو تو علی ظفر سے کریں اور ہماری باری آئی تو قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس جائیں گے، اور لاڈلہ کس کو کہتے ہیں؟ یہ ہیں دو پاکستان، آپ نے بنائے ہیں جن کا احتساب بھی دو نمبر ہے، جن کی کارکردگی صفر ہے اور جن کا ہدف صرف حزب مخالف ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ذمہ دار اپوزیشن ہیں، ہم پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرتے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ادارے کامیاب ہوں، ریلوے بھی کامیاب ہو۔ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت ایم ایل ون منصوبہ جہاں یہ حادثہ ہوا ہے وہ مکمل ہوچکا ہوتا، لاہور-ملتان مکمل ہوجاتا اور پنڈی-لاہور کے درمیان پوٹھوہار میں نیا ٹریک تعمیر ہوچکا ہوتا اور اگلا منصوبہ الیکٹرونک سگنلنگ کا تھا لیکن وہ ٹیم ہی توڑ دی گئی۔انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کا شعبہ بنایا تھا یہ جو ای ٹکٹنگ ہے، ای ٹکٹنگ کو تباہ کرکے رکھ دیا اور پنڈی سے اپنی مرضی کے لوگ بھرتی کرلیے اور ان پروفیشنل لڑکوں کو نکال دیا جن کو میں جانتا بھی نہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کو اس جگہ لے جایا گیا جہاں خدانخواستہ بندش کی طرف جائے گا کیونکہ ریلوے اپنا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی۔
خواجہ سعد رفیق نے مطالبہ کیا کہ اس حادثے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور تبلیغی جماعت کے لوگ شہید ہوئے تھے، اس کی بھی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ حقیقت کا پتہ چلے۔سابق وزیر ریلوے نے کہا کہ اگر حکومت میں ہمت ہے تو اس کی اور پچھلے حادثے کی انکوائری کرائے، دودھ کا دودھ سامنے آجائے گا۔
یاد رہے 7 جون کی صبح سندھ میں گھوٹکی کے قریب دو مسافر ٹرینوں کے تصادم خوفناک تصادم ہواجس کے نتیجے میں متعدد مسافر جاں بحق اور زخمی ہوگئے اطلاعات کے مطابق کراچی سے آنے والی سرسید ایکسپریس اور سرگودھا سے کراچی جانے والی ملت ایکسپریس میں تصادم میں کم از کم 41 افراد جاں بحق اور 60 مسافر زخمی ہو گئے ہیں جبکہ متعدد مسافرتاحال بوگیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شدید زخمی مسافروں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ بوگیوں میں پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کےلیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ حادثہ ڈہرکی اور ریتی لین اسٹیشن کے قریب پیش آیا جس میں ملت ایکسپریس کی 8 اور سر سید ایکسپریس کے انجن سمیت 3 بوگیں پٹری سے اترگئیں۔ حادثے کی اطلاع ملنے کے چند گھنٹے بعد علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا، زخمیوں اور جاں بحق افراد کو صادق آباد، ڈہرکی اور میرپور ماتھیلو کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ڈی ایس ریلوے طارق لطیف کے مطابق ملت ایکسپریس کی 8 بوگیاں 3 بج کر 38 منٹ پر ٹریک سے اتریں اور اس کے ٹھیک 2 منٹ بعد ہی سرسید ایکسیریس متاثرہ بوگیوں سے ٹکراگئی، حادثے میں اپ ٹریک کا 1100 فٹ اور ڈاؤن ٹریک کا 300 فٹ کا حصہ متاثر ہوا۔ ڈپٹی کمشنر نے اب تک 41 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے جب کہ 60 سے زائد مسافر زخمی ہیں۔ ریلوے ذرائع نے تصدیق کی ہےکہ ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ریلوے کے 4 ملازمین بھی شامل ہیں جن میں 2 پولیس اہلکار ہیں۔ مقامی حکام کا بتانا ہے کہ رات گئے حادثے کی وجہ سے اندھیرے کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ہیوی مشینری کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی تاہم مقامی لوگ امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

Back to top button