پاکستانی شہروں میں افغان طالبان کے پرچم لہرانے لگے

امریکی فوج کے انخلا اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آتے ہی افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں چمن اور قلعہ عبداللہ میں افغان طالبان متحرک ہو گے ہیں اور بازاروں میں انکے جھنڈے لہرانا شروع ہوگئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان آرمی سے سپین بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے افغان طالبان پاکستانی سرحدی علاقوں میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس سے پہلے باب دوستی اور ویش منڈی کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد افغان طالبان کی جانب سے دعوی کیا گیا انھیں اس کا کنڑول حاصل کرنے کے لیے زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چمن کے مقامی افراد اس دعوی سے متفق نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سرحد کے اس پار ہونے والی لڑائی کی آوازیں اس پار سنی جا سکتی ہیں لیکن باب دوستی اور ویش منڈی پر قبضے کے دوران فائرنگ یا دھماکوں کی کوئی آواز سنائی نہیں دی گئی جس کا مطلب ہے کہ افغان باڈر سکیورٹی اہلکاروں نے پر امن طور پر ہتھیار ڈال دیے اور کنڑول طالبان کے حوالے کر دیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سپین بولدک پر قبضے کے بعد سرحد پار چمن اور قلعہ عبداللہ کے علاقوں میں افغان طالبان نہ صرف اپنے حق میں پروپیگنڈا مہم چلا رہے ہیں بلکہ چندا بھی اکٹھا کر رہے ہیں۔ چمن باڈر سے کچھ کلو میٹر دور ایک چھوٹے بازار میں واقع مسجد کے باہر کالی دستار اور سفید قمیض شلور پہنے دو افراد کے گرد کچھ لوگ مجمع لگائے کھڑے تھے اور ان دو افراد کے ہاتھ میں ایک موبائل تھا جس کی طرف سب کی توجہ مرکوز تھی۔ اس مجمعے سے کچھ دور دو موٹر سائیکلیں بھی کھڑیں تھی جن پر امارت اسلامی کا سفید جھنڈا لہرا رہے تھے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس مجمعے میں کھڑا ایک مقامی شخص باہر نکل کر آیا اور اس نے بتایا کہ یہ دونوں طالبان ہیں اور کچھ دیر قبل ان کی افغانستان سے واپسی ہوئی ہے اور وہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افغان سکیورٹی اہلکاروں کی ویڈیوز دیکھا رہے ہیں۔اس مقامی شخص نے بتایا کہ یہ طالبان دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھیں جلد ایک اور بڑی کامیابی ملنے والی ہے۔
ابھی اس بات کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ خبر آئی کہ طالبان نے پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے سپین بولدک اور اہم تجارتی مرکز ویش منڈی کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد ’باب دوستی‘ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں دن بہ دن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے پاکستان میں ان کی آمد و رفت اور دیگر سرگرمیوں سے متعلق بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
طالبان کی جانب سے سپین بولدک پر قبضے سے چند دن قبل سے بلوچستان کے علاقے چمن میں طالبان کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھنے میں آئی تھی۔ چمن اور قلعہ عبداللہ کی چھوٹی مساجد کے باہر، بازار اور مرکزی روڈ پر ہر کچھ فاصلے پر کالی دستار باندھے اور امارت اسلامی کا جھنڈا لگائے موٹر سوار نظر آئی۔ ایسی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی گئیں جن میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوؤں کی میتوں کا چمن میں استقبال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چمن کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ امریکی فوج کے انخلا اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آتے ہی افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں جیسا کہ چمن اور قلعہ عبداللہ میں طالبان ایک بار پھر متحرک دیکھائی دے رہے ہیں۔
مقامی شخص کا کہنا تھا کہ اگرچہ بہت سے طالبان کا تعلق اسی علاقے سے ہے لیکن پھر بھی ان کے حلیے سے انھیں دیگر مقامی افراد سے الگ پہچانا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کو اکثر بازار سے گزرتے اور مساجد میں نماز پڑھتے دیکھا جاسکتا ہے لیکن سپین بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے یہ معمول سے زیادہ تعداد میں نظر آرہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قلعہ عبداللہ سے چمن جاتے ہوئے سڑک کے دونوں اطراف ایسی متعدد قبریں موجود ہیں جن پر عمارات اسلامی افغانستان کے سفید جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ چمن کے ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے طالبان کے جنازے افغانستان سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقوں میں تدفین کے لیے لائے جاتے ہیں اور ان جنازوں میں شرکت کرنے والوں کو نہ صرف افغان جہاد کا حصہ بننے کی ترغیب دی جاتی بلکہ ہلاک ہونے والے مقامی طالبان کو مرکزی روڈ کے قریب دفن کر کے ان کی قبروں کو سفید جھنڈے سے اس لیے نمایاں بنایا جاتا ہے تاکہ انھیں دیکھ کر مقامی افراد کی حوصلہ افزائی ہو۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتوحات کے نتیجے میں بارڈر پار پاکستانی علاقے میں تحریک طالبان پاکستان دوبارہ سے اکٹھی ہو رہی ہے اور دہشت گردی کی کاروائیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔