پاکستانی شہری کن ممالک میں کن شرائط پر داخل ہو سکتے ہیں؟
جب گذشتہ برس جنوری کے اوائل میں دنیا بھر میں کووڈ 19 کی وبا کا پھیلاؤ شروع ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اب حالات کبھی بھی پہلے جیسے نہیں رہیں گے اور ہماری زندگی سے جڑے ہر معاملے میں اس بیماری کی مداخلت نظر آئے گی۔ اس دوران سیاحت یا ملازمت کی غرض سے بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانی مسافروں کی زندگیاں بھی متاثر ہوئیں۔ کورونا وائرس کی بیماری کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ممالک کو اپنی سرحدیں بند کرنا پڑیں اور مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا۔ ایسے میں سیاحت کا شعبہ ایسا تھا جس سے منسلک لوگوں کا کاروبار ناقابل یقین حد تک متاثر ہوا۔ غیر ملکی مزدوروں کو اپنے وطن لوٹنے میں دشواری پیش آئی تو بعض واپس اپنی نوکریوں کے لیے بیرون ملک نہ جاسکے۔
چاہے وہ عالمی فضائی کمپنیاں ہوں یا یورپ کے کسی مشہور سیاحتی مقام پر برگر بیچنے والا، ہر کسی کو گذشتہ ایک سال میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایسے میں بات کرتے ہیں ان پاکستانیوں کی جو کہ موسم گرما کی چھٹیاں منانے ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن رواں سال کورونا کی وبا کے باعث پاکستان کا نام مختلف ممالک کی ‘ممنوع فہرست’ میں شامل ہونے پر یا اپنے گھروں میں ہی بیٹھے ہیں یا پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ گو کہ اس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا نے اس طرح سے تباہی نہیں پھیلائی اور وائرس کی مختلف لہریں بھی طویل عرصے تک قائم نہیں رہیں۔
لیکن کیونکہ کورونا وائرس کے معاملے میں صورتحال گھڑی گھڑی تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہو گا کہ دنیا کے مختلف ممالک اپنے کورونا وائرس سے متعلق قواعد میں مسلسل تبدیلی بھی لا رہے ہیں اور اسی طرح پاکستانی مسافروں کی مختلف ممالک میں داخلے کے حوالے سے شرائط میں تبدیلی، نرمی یا سختی، وقتاً فوقتاً کی جا رہی ہیں۔
یہاں جائزہ لیتے ہیں دنیا کے بعض ممالک کا اور دیکھتے ہیں کہ پاکستان سے سفر کرنے والوں کے لیے کیا کیا شرائط ہیں اور کہاں وہ جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں۔ متحدہ عرب امارات کی سول ایوی ایشن کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ ترین اعلامیہ کے مطابق پاکستان سے یو اے ای جانے والی تمام پروازوں پر 21 جولائی 2021 تک پابندی ہے۔متحدہ عرب امارات کے فیصلوں کا مطلب ہے کہ ان کی دونوں بڑی فضائی کمپنیاں، ایمیریٹس اور اتحاد نے پاکستان سے کمرشل پروازوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔لیکن پاکستان سے سفر کرنے والے شہریوں کے لیے متحدہ عرب امارات داخلے پر پابندی تو نہیں ہے لیکن مختلف ریاستوں میں مختلف قوانین نافذ ہیں۔ اور فلائٹس کے شیڈول بدلتے رہتے ہیں۔
اعلامیے کے مطابق پی سی آر ٹیسٹ کرانے، قرنطینہ کرنے اور ٹریکنگ ڈیوائس پہننے کی شرائط پر یہ افراد متحدہ عرب امارات میں داخل ہو سکتے ہیں:
وہ لوگ جن کے پاس یو اے ای کی شہریت ہو
کاروباری افراد جن کے پاس گولڈ یا سِلور ریزیڈینسی پرمٹ ہو
وہ کاروباری افراد جن کے پاس متعلقہ مقامی حکام کی جانب سے جاری کیا گیا اجازت نامہ ہو
کارگو فلائٹس پر جانے والے لوگ جیسے ابو ظہبی میں داخل ہونے کے لیے ویکسین کی مکمل خوراک حاصل کرنے والے مسافروں کو کم از کم پانچ دن کے لیے قرنطینہ کرنا ہو گا اور چوتھے دن پی سی آر ٹیسٹ کروانا ہو گا۔ بغیر ویکسین والے مسافروں کو دس دن قرنطینہ اور آٹھویں روز پی سی آر ٹیسٹ کروانا ہو گا۔
دبئی اور شارجہ کے قوانین کے مطابق مسافروں کو روانگی سے چار روز قبل کا کووڈ ٹیسٹ دکھانا ہوگا اور ٹیسٹ کا نتیجہ آنے تک قرنطینہ میں رہنا ہو گا۔ مثبت نتیجے کی صورت میں کم از کم 14 دن تک قرنطینہ میں جبکہ منفی کی صورت میں وہ باہر جا سکتے ہیں۔خلاف ورزی کی صورت میں پچاس ہزار درہم کا جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔
سعودی حکومت کی جانب سے بنائی گئی فہرست کے مطابق نو ممالک بشمول پاکستان سے آنے والے شہریوں کے لیے ملک میں داخلہ ممنوع ہے ماسوائے ان افراد کے جو اپنی آمد پر سعودی حکومت کی جانب سے منظور شدہ ویکسین لگوانے کا ثبوت دے سکیں۔ان ویکسین میں فائزر، موڈرنا، جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا ویکسین شامل ہیں۔سعودی قوانین کے مطابق قرنطینہ کرنے کی صورت میں مسافروں کو کم از کم سات دن تک اپنے خرچے پر حکومت سے منظور شدہ ہوٹلوں میں قیام کرنا ہوگا۔
برطانوی حکومت نے اپریل کے مہینے میں پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالا تھا جب ملک میں تیسری لہر کا سلسلہ زور پکڑ رہا تھا تاہم اپریل کے آخر تک اعداد و شمار کی مدد سے یہ واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان میں تیسری لہر کم ہو چکی ہے۔تاہم تاحال پاکستان ابھی تک ریڈ لسٹ میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ شرائط کے تحت جو مسافر ریڈ لسٹ ممالک سے سفر کر کے برطانیہ جانا چاہتے ہیں ان میں سے صرف ان افراد کو اجازت ملے گی جو یا تو برطانوی یا آئرش شہری ہوں یا ان کے پاس برطانیہ میں قیام کے حقوق ہوں۔اور اگر ایسے لوگ جو شرائط پر پورا اترتے ہوں اور انھوں نے ویکسین بھی لگوائی ہو، تو بھی انھیں سفر کرنے سے قبل کووڈ ٹیسٹ کرانا ہو گا اور برطانیہ پہنچنے پر منظور شدہ ہوٹل میں قرنطینہ اور مزید دو اور ٹیسٹ کروانے ہوں گے۔
امریکہ ان چند ممالک میں شامل ہے جس نے دنیا بھر کے لیے اپنی سرحدیں کچھ شرائط کے ساتھ کھول دی ہیں اور پاکستان سے سفر کرنے والے مسافر ان کو پورا کر کے وہاں داخل ہو سکتے ہیں۔ان شرائط کے مطابق بیرون ملک رہنے والے امریکی شہری سمیت وہ تمام افراد جو امریکہ داخل ہونا چاہتے ہیں وہ روانگی سے تین روز قبل اپنا کووڈ ٹیسٹ کرائیں یا وہ لوگ جو سفر سے 90 روز قبل اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہوں وہ اپنی صحتیابی کا ثبوت دکھا کر امریکہ جا سکتے ہیں۔
حال ہی میں کینیڈا کے وزیر ٹرانسپورٹ عمر الگھبرا نے ٹویٹ کرتے ہوئے پیغام دیا تھا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے تحت کینیڈا پاکستان سے آنے والی پروازوں پر سے عائد پابندی ختم کر رہا ہے۔البتہ ملک میں داخل ہونے کے لیے موجود شرائط کے تحت غیر ملکی باشندوں کا کینیڈا میں داخلہ صرف مشروط بنیادوں پر ممکن ہوگا۔ان شرائط کے مطابق غیر ملکی افراد کو کینیڈا میں داخل ہونے ہونے کی اجازت اس صورت میں ممکن ہوگی اگر وہ ثابت کر سکیں کہ ان کے قریبی خاندان کے افراد کینیڈین شہری یا ریزیڈینسی رکھتے ہیں اور پرواز سے قبل انھیں اپنی ٹیسٹ کروانا لازمی ہوگا۔ملک پہچنے پر ان افراد کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ بھی کرنا ہوگا تاہم حکومتی شرائط کے مطابق پانچ جولائی سے کینیڈین حکام سے تصدیق شدہ ویکیسن لگوانے کی صورت میں کینیڈا پہنچنے پر قرنطینہ کی شرط لاگو نہیں ہوگی۔
یورپی یونین نے گذشتہ برس کووڈ کی وبا کے آغاز کے بعد شینجن ویزے کے سلسلے کو بیماری کے پھیلاؤ کے سبب معطل کر دیا تھا اور ای یو کے تمام ممالک نے انفرادی طور پر غیر ملکیوں کے داخلے کے لیے قوانین نافذ کر دیے تھے۔وبا کے ایک سال بعد اب حالات میں بہتری کی صورتحال نظر آ رہی ہے اور جون میں ای یو نے ان غیر یورپی 15 ممالک کے ناموں کی فہرست جاری کی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ای یو ک ممبر ممالک ان ملکوں سے آنے والے شہریوں کو ‘غیر ضروری’ سفر کرنے کے لیے شینجن خطے میں آنے کی اجازت دے دیں۔
دوسری جانب پاکستان کو مختلف یورپی ممالک نے اپنے تجزیے کے مطابق مختلف کیٹیگری میں رکھا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان ابھی بھی فرانس اور آئس لینڈ میں ‘ممنوع ممالک’ کی فہرست میں ہے جبکہ ڈنمارک میں حکومت کی جانب سے تعین کردہ چار درجوں میں سے پاکستان تیسرے درجے یعنی نارنجی فہرست میں ہے۔جرمنی نے وائرس سے متاثرہ علاقوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہوا ہے جس میں پاکستان ‘بیسک رسک ایریا’ میں شامل ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں بیماری ضرور ہے لیکن کئی ممالک اس سے مزید دو درجے نیچے ہیں۔گو کہ یورپ کے تمام ممالک کے اپنے اپنے قوانین اور شرائط ہیں جن پر وہ وقت کے ساتھ ساتھ نظر ثانی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ تمام ممالک میں مشترکہ ہے کہ سفر کرنے سے قبل ٹیسٹ اور دوسرے ملک پہنچ کر دوبارہ ٹیسٹ کرنا لازمی ہے جبکہ منظور شدہ ویکسین لگوانے کی صورت میں اس کا ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران ترکی نے بھرپور کوشش کی ہے کہ ان کی سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان نہ پہنچے اور اس حوالے سے انھوں نے اپنی سرحدیں کھلی رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔تازہ ترین قواعد کے مطابق وہ مسافر جن کو ویکسین نہیں لگی ہوئی انھیں ترکی پہنچ کر لازمی قرنطینہ کرنا ہو گا۔ترکی میں پاکستان سفارت خانے نے 28 جون کو سلسلہ وار ٹویٹس میں پاکستان سے سفر کرنے والے شہریوں کے لیے شرائط پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان مسافروں کو قرنطینہ کرنا ضروری ہوگا لیکن اس کی مدت 14 دن سے کم کر کے دس دن کر دی گئی ہے۔