پاکستان میں انسداد پولیو مہم ناکام ہوگئی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تحت کام کرنے والے ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے پاکستان کے پولیو پروگرام کو ناکام قرار دیتے ہوئے صورت حال کو دنیا کے لیے خطرناک قرار دے دیا ہے۔انسداد پولیو کے لیے کام کرنے والے ٹیکنکل ایڈوائزری گروپ (ٹیگ) کے ماہرین صحت سال میں دو مرتبہ ایسے ممالک کے پولیو پروگرام کا جائزہ لیتے ہیں جہاں تاحال اس مرض کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔اسلام آباد میں 29 اور 30 اگست کو ایڈوائزری گروپ نے اپنے ششماہی اجلاس میں ایک بار پھر پاکستان کے پولیو پروگرام پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ماہرین صحت کا یہ گروپ پولیو سے متاثرہ ملکوں کو اس مرض کے تدارک کے لیے اپنی سفارشات بھی پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں رواں سال پولیو کیسز کی تعداد 62 تک جا پہنچی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی پولیو کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ٹیگ کے ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں انسداد پولیو مہم ایسے موڑ پر کھڑی ہے جس کی ناکامی کا اثر بہت دور تک جا سکتا ہے۔ ماہرین صحت نے اجلاس کے اختتام پر اپنے مشاہدات اور سفارشات پر مشتمل رپورٹ بھی مرتب کی ہے۔ ماہرین نے پاکستان کی موجودہ انسداد پولیو پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے حکمت عملی کا فقدان قرار دیا ہے۔ٹیگ نے ‘ون ٹیم’ کے آزمودہ فارمولے کو دوبارہ اپنانے کی تجویز دی ہےاور کہا گیا ہے کہ موجودہ انسداد پولیو پروگرام پیچیدہ حکمت عملی کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہا۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر اور خیبر پختونخوا کے آپریشن سینٹرز بدانتظامی سے دوچار ہیں۔یاد رہے کہ رواں سال سب سے زیادہ 46 پولیو کیسز خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ٹیگ کی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ سیاسی قیادت کا متحرک کردار پولیو مہم میں بہتری لا سکتا ہے۔ٹیگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ژوں مارک اولیویے کی زیر نگرانی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی طور پر پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام چار وجوہات کی بنا پر ناکامی سے دوچار ہے۔ جس میں "ون ٹیم” پالیسی سے دوری، انسداد پولیو مہم کی صوبائی، ضلعی اور کونسل سطح پر انتظامی ناکامی بھی شامل ہے۔ اُن کے بقول انسداد پولیو مہم کے اعلیٰ معیار کو یقننی بنانے میں ناکامی اور کمیونیٹیز کے درمیان بھروسے کی فضا قائم نہ کر پانے جیسے عوامل انسداد پولیو مہم کو ناکامی کی جانب لے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں سیاسی و فوجی قیادت، وزراتِ صحت اور انسداد پولیو مہم کے سربراہ سمیت دیگر سرگرم اداروں کے کردار کو سراہا گیا ہے۔ عالمی ماہرین صحت نے اپنی رپورٹ میں حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ والی ہائی رسک یونین کونسلز کی نشاہدہی کرے۔ ٹیگ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اگر انسداد پولیو مہم کو ٹیگ ماہرین کے وضع کردہ اصولوں سے ہم آہنگ کر لے تو اس کے بہتر نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے اعدادو شمار کے نظام کو بھی ازسر نو تشکیل دینے اور اس سے متعلق نظام کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ٹیگ ماہرین نے پولیو ویکسین سے متعلق منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کی مدد لینے کی بھی تجویز دی ہے۔ ٹیگ نے خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس سے متعلق صورت حال کو سنگین قرار دیا ہے۔ ماہرین نے خیبر پختونخوا کو دنیا بھر سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کے ایمرجنسی سینٹرز قومی ایمرجنسی سینٹرز سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ٹیگ نے صوبہ سندھ میں انسداد پولیو مہم میں حکومتی دلچسپی کو سراہا ہے۔ لیکن پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی اور حیدر آباد میں پولیو وائرس موجود ہے۔ کراچی میں ایسے بچوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے جو پولیو کی حفاظتی ادویات نہیں لے رہے۔ ٹیگ نے جو تجاویز دی ہیں ان میں پشتون بستیوں میں پولیو ادویات سے متعلق مؤثر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ٹیگ ماہرین کے مطابق صوبہ پنجاب میں بھی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ماہرین نے پولیو ویکسین کے معیار اور مختلف علاقوں میں تاحال وائرس کی موجودگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وائرس کی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقلی کا سدباب بھی ضروری ہے۔ ٹیگ نے بلوچستان کی "ون ٹیم” حکمت عملی کو اپنانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسداد پولیو مہم کی کامیابی کا انحصار قلعہ سیف اللہ میں پولیو پر قابو پانے پر ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے جنوبی حصے میں لاکھوں بچے اب بھی پولیو ویکسین سے محروم ہیں۔دوسری طرف انسداد پولیو مہم کے فوکل پرسن بابر بن عطا کے بقول پولیو کا وائرس اور اس کا پھیلاؤ انہیں ’ورثے‘ میں ملا ہے۔ ٹیگ خود بھی انسداد پولیو مہم کا حصہ ہے لہذٰا صرف پاکستان کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button