پاکستان میں فیس بک مونٹائزیشن میں رکاوٹیں کیا؟

پاکستان میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام فیس بک مونٹائزیشن کے لیے سوشل میڈیا سائٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن تاحال فیس بک انتظامیہ کی جانب سے مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔
وزارت آئی ٹی کے حکام نے اردو نیوز کو تصدیق کی ہے کہ ’فیس بک انتظامیہ کے ساتھ مونٹائزیشن کے حوالے سے متعدد میٹنگز بھی ہو چکی ہیں لیکن فی الحال اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے سابق معاون خصوصی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیا اللہ بنگش نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’فیس بک انتظامیہ کے ساتھ گذشتہ چھ ماہ سے مونٹائزیشن کے حوالے سے بات چیت جاری ہے تاہم پاکستان کی جانب سے مناسب قانون سازی نہ کرنے کی وجہ سے معاملہ تعطل کا شکار ہے۔‘

سندھ ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا
انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی آن بورڈ لیا گیا تھا تاکہ مناسب قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے جا سکیں اور سپیکر قومی اسمبلی نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ تمام تحفظات دور کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔‘
ضیا اللہ بنگش کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کی جائے گی تاکہ جس طرح یوٹیوب سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملا ہے اسی طرح فیس بک سے بھی نوجوان فائدہ حاصل کریں۔
فیس بک انتظامیہ کے تحفظات کیا ہیں؟
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’فیس بک انتظامیہ کی جانب سے پاکستان میں سوشل میڈیا رولز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے متعلق قانون سازی نہ ہونے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔‘

’فیس بک انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی نہ لگائی جائے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’فیس بک انتظامیہ نے پاکستان سے سوشل میڈیا رولز میں ترمیم کی بھی درخواست کی ہے اور اس حوالے سے مناسب قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا۔‘
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے سابق معاون خصوصی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیا اللہ بنگش نے ان تحفظات کے بارے میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’فیس بک انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی نہ لگائی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے سوشل میڈیا ایپس اس کا شکار ہوتی ہیں۔ کبھی ایک ایپ بند کر دی جاتی ہے تو کبھی دوسری ایپ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اس سے ان ایپس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ پاکستان میں ان ایپس کو استعمال کرنے والے صارفین کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔‘
ضیا اللہ بنگش کے مطابق ’فیس بک انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائی جائے۔ اگر مونٹائزیشن آن ہو جاتی ہے تو یہ ایک بزنس ہے، پھر اس طرح بار بار بند کرنا مناسب نہیں، اس سے فیس بک اور صارفین دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے اور ایک پالیسی مرتب کی جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’فیس بک انتظامیہ کو کچھ قوانین اور سوشل میڈیا رولز کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں۔ کمپنیوں کو دفاتر کھولنے کا پابند بنانے کے حوالے سے بھی فیس بک انتظامیہ نے واضح موقف اختیار کیا ہے کہ اس طرح پابند نہیں بنایا جا سکتا۔‘
ضیا اللہ بنگش کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سپیکر قومی اسمبلی سے بھی بات کی ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کو ہم دباؤ ڈال کر دفتر کھولنے کا نہیں کہہ سکتے۔ اس حوالے سے پہلے ان کا اعتماد بحال کریں اس کے بعد دفاتر کھولنے کی بات کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے سپیکر سے درخواست کی ہے کہ سوشل میڈیا رولز میں ترامیم کی جائیں۔‘
ضیا اللہ بنگش کے مطابق پاکستان میں فیس بک کے پانچ کروڑ سے زائد صارفین موجود ہیں اور ان صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہمیں قوانین میں نرمی لانا ہوگی۔

Back to top button