پاکستان میں مقیم افغانی بچوں کیلئے پاکستانی رشتے کیوں ڈھونڈنے لگے؟

حکومت پاکستان نے غیر قانونی مقیم افغانیوں کی ملک بدری کے عمل میں مزید تیزی لانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد پاکستان میں لمبے عرصے سے قیام پذیر امیر افغانیوں نے واپس جانے کی بجائے پاکستان میں اپنا قیام بڑھانے کے حوالے سے مختلف حربے تلاش کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ حکومت کی جانب سے  افغان مہاجرین کو دی گئی 30 جون کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے بعد بڑے افغان تاجروں اور سرمایہ داروں نے کاروبار وغیرہ سمیٹ کر واپس جانے کی بجائے پاکستان میں اپنے بچوں کیلئے رشتے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ہیں کیونکہ قانونی طور پر پاکستان میں شادی ہونے کی صورت میں وہ افغانستان جانے سے بچ سکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین سے شادی کی صورت میں افغان باشندوں کو پاکستان اوریجن کارڈ مل سکتا ہے۔ یہ کارڈ ملنے کے بعد وہ پاکستان میں ہی ٹھہر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے بڑے افغان تاجروں اور سرمایہ کاروں نے اپنے بچوں کیلئے پاکستان میں رشتے تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ تاکہ وہ اپنا تمام کاروبار فروخت کرنے اور جائیدادیں بیچنے سے بچ جائیں کیونکہ کاروبار کی منتقلی اور جائیدادوں کی فروخت میں افغانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے افغان باشندے کا روبار میں نقصان کرنے کے بعد افغانستان جاچکے ہیں۔ جبکہ متعدد نے اپنی قیمتی جائیدادیں اونے پونے داموں بھی فروخت کی ہیں۔ تاہم ایسے بڑے افغان سرمایہ دار اور تاجر جن کو افغانستان میں دوبارہ سے کاروبار چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، انھوں نے پہلے تو پاکستان میں ہی ٹھہر نے کیلئے  حکومت سے مہلت مانگی اور جب حکومت پاکستان نے ان کو مزید وقت دید یا تو انہوں نے اب مستقل طور پر پاکستان میں ہی رہنے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے پاکستان میں دوست احباب سے درخواست کی ہے کہ ان کے بچوں کا رشتہ کرانے میں ان کی مدد کی جائے۔ تا کہ اگر وہ مجبورا افغانستان چلے بھی جائیں تو ان کا کاروبار اور جائیداد سنبھالنے والے پاکستان میں موجود ہوں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کچھ اطلاعات ایسی بھی موصول ہورہی ہیں کہ بہت ساری ایسی افغان خواتین بھی ہیں جو نجی اداروں میں ملازمت کر رہی ہیں اور اچھی خاصی تنخواہ بھی لے رہی ہیں، انہوں نے بھی پاکستان میں ہی رہ کر گھر بسانے کے بارے میں غور شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پشاور میں کام کرنے والی افغانی خواتین کا ماننا ہے کہ افغانستان میں خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔ ایسے میں ان خواتین کو وہ ماحول نہیں ملے گا کہ جس میں وہ ملازمت کر کے گھر کی کفالت کر سکیں۔ ذرائع کے مطابق جیسے جیسے افغان باشندوں کو حکومت پاکستان کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے، افغان تاجروں اور سرمایہ داروں نے اپنے دوستوں سے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔ تا کہ اپنے بچوں کیلئے مناسب رشتہ ڈھونڈ سکیں۔

واضح رہے کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں افغان باشندوں کی بڑی جائیدادیں اور کاروبار موجود ہیں ۔ جو انہوں نے گزشتہ کئی عشروں تک یہاں پر رہ کر بنائی ہیں اور اس کاروبار کو ایک دم سے چھوڑ دیناان کیلئے نقصان کا باعث بنے گا۔ اسی لئے پہلے مرحلے پر انہوں نے حکومت پاکستان سے مزید وقت مانگا اور جب حکومت نے افغان باشندوں کو واپس جانے کی ڈیڈ لائن بڑھا دی تو اب انہوں نے مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پشاور سے متصل ضلع نوشہرہ کی تحصیل اکبر پورہ سے تعلق رکھنے والے زمان خان نے بتایا کہ وہ باغات کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ افغان تاجر بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ تا ہم گزشتہ ایک ہفتے سے ان کے ساتھ دو سے تین افغان تاجروں نے رابطے کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان بچوں کیلئے کوئی مناسب رشتہ ہو تو بات آگے بڑھائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے افغانوں کو واپس جانے کی تاریخ دی ہے۔ اگر پاکستان میں رشتہ ہو جائے گا تو کم از کم کاروبار تو بچ جائے اور جو زمین و جائیداد ان کے بڑوں نے خریدی ہے، وہ بھی کم داموں فروخت سے بچ جائے گی۔

واضح رہے کہ مارچ کے اوائل میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے حکم نامے کے مطابق افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کو رضاکارانہ طور پر 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایات جاری کی گئی تھی۔ جس کے بعد پاکستان میں موجود 20 لاکھ سے زائد افعان باشندوں کو مرحلہ وار ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں۔اس ضمن میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے افغان باشندوں کے کوائف جمع کیے گئے تھے جس کے بعد سے افغان باشندوں کی پاکستان بدری کا سلسلہ جاری ہے واضح رہے کہ ستمبر 2023 سے جاری اس مرحلہ وار واپسی کے دوران اب تک مجموعی طور پر 5,47,296 افغان مہاجرین پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس جا چکے ہیں۔

Back to top button