پاکستان نواز حامد میر غدار وطن کیوں نہیں ہو سکتا؟

معروف لکھاری اور کئی مشہور ناولوں کے مصنف محمد حنیف سینئر صحافی حامد میر پر حالیہ تنازعہ کے بعد لگنے والے غداری کے الزامات کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہا اگر پاکستانیت کا کوئی مقابلے کا امتحان ہو تو حامد میر پہلی پوزیشنوں میں سے ایک لے گا۔ حنیف کے مطابق حامد میر اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والا ہے، وہ ہندوستان سے دشمن داری رکھتا ہے اور اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھتا ہے، لہذا اس درجے پر پہنچا ہوا پاکستانی بھی اگر غدار ہے تو ہم جیسے کمزور ایمان والے پاکستانی کس کی ماں کو خالہ کہیں؟
بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں محمد حنیف لکھتے ہیں کہ دراصل حامد میر نے کچھ ایسی غلطیاں کی ہیں جو ہمارے دیگر ٹی وی اینکرز نہیں کرتے۔ میرا اشارہ بیس سال تک عمران خان کے انٹرویو کرنا نہیں ہے کیونکہ وہ تو سب نے کیے ہیں۔ حامد میر کی غلطی یہ ہے کہ اسلام آباد اور پنڈی میں بیٹھے ہمارے حکمران جن پاکستانیوں کو مقبوضہ علاقوں کے شہریوں کی طرح دیکھتے ہیں، اس نے ان کی آواز عوام تک پہنچائی ہے خصوصا بلوچستان کے عوام کی، اور یہی انکی وہ ناقابل تلافی غلطی ہے جس کے نتیجے میں انکو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔
محمد حنیف کے مطابق پاکستانی نیوز چینلوں پر نظر آنے والے چہروں میں سب سے زیادہ پہچانا جانے والا چہرہ حامد میر کا ہے۔ بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ پاکستان کے کسی دور دراز علاقے میں اگر لوگوں کو حامد میر اور سپہ سالار جنرل باجوہ کی تصویر دکھائی جائے تو شاید زیادہ لوگ حامد میر کو پہچان لیں گے۔ اِس سے کہنا یہ مقصود نہیں ہے کہ کہ حامد میر جنرل باجوہ سے زیادہ ہر دلعزیز ہیں بلکہ صرف یہ کہ حامد میر بیس سال سے تقریباً ہر روز ٹی وی پر نظر آتے ہیں جبکہ باجوہ صاحب کو ابھی آئے ہوئے چار سال ہی ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی ایکسٹینشن میں مذید برکت ڈالے لیکن وہ ٹی وی پر کم ہی نظر آتے ہیں بلکہ خود ٹی وی پر آنے کی بجائے ٹی وی والوں کو گھر پر ہی بلا کر اپنا شو خود ہی سجا لیتے ہیں۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ حال ہی میں اسد طور پر ہونے والے تشدد کے بعد احتجاجی مظاہرے میں جب حامد میر نے مختصر اور دھواں دھار خطاب کیا تو مجھے لگا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ لیکن ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ آخر حامد میر پاکستان کا سب سے مشہور اینکر تھا۔ لیکن پھر میں نے سنجیدگی سے ایک فہرست بنانی شروع کی کہ آخر یہ پاگل حامد میر چاہتا کیا ہے؟ کیا وہ مزید دولت چاہتا ہے، مذید شہرت چاہتا ہے، عزت چاہتا ہے یا بے عزتی۔ جہاں تک دولت کا تعلق ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ حامد میر پاکستان کے سب سے بڑے چینل کا سب سے بڑا اینکر ہے، اور برے وقتوں میں جب چینل کارکنوں کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی تھی تو اینکروں کو تب بھی کچھ نہ کچھ ملتا تھا۔ لہازا میرا خیال ہے حامد میر ایک خوشحال انسان ہے اور ویسے بھی ہر صحافی کی جیب میں لفافہ ڈھونڈ لینے والوں نے کبھی حامد میر کی کرپشن کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
حنیف کہتے ہیں کہ جہاں تک مذید عزت حاصل کرنے کی خواہش کا تعلق ہے تو پاکستان میں عزت کا مطلب طاقت کے ایوانوں تک رسائی ہے۔ پاکستان کا کوئی حکمران، اپوزیشن لیڈر، قطار میں لگا لیڈر، کوئی ریٹائرڈ جنرل یا کوئی پاپ سٹار ایسا نہیں ہے جس نے حامد میر کو انٹرویو نہ دیا ہو۔ بلکہ کہنے والے تو یہی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے بیس سال تک عمران خان ہر روز یہی سوچتے تھے کہ پتہ نہیں آج حامد میر اپنے شو میں بلائے گا یا نہیں۔ اور حامد میر نے کم ہی انھیں مایوس کیا۔
حنیف کہتے ہیں کہ جہاں تک بے عزتی کا تعلق ہے تو مجھے ٹی وی ٹاک شو دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا لیکن کوئی مہینہ نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا کھولو تو حامد میر کے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے۔ اور کئی مرتبہ تو ڈھونڈنے سے بھی پتہ نہیں چلتا کہ اب میر صاحب نے کیا کر دیا۔ کبھی ان کے ماتھے پر اسرائیل کا جھنڈا ہوتا ہے، تو کبھی ہندو پنڈت کا روپ دھار لیتے ہیں، کبھی نواز شریف یا زرداری کا پٹہ پہنایا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی ہے کہ کچھ اور سمجھ نہ آئے تو اس حامد میر کو غدار کہہ کر دہاڑی بنا لو۔
لہذا حنیف کہتے ہیں کہ مجھے پورا یقین ہے کہ حامد میر دولت، شہرت اور عزت وغیرہ کے معاملے میں خود کفیل ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ پاکستان کے دشمن ہیں، غدار ہیں، یا جیسا کہ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا وہی ہے جو کے پاکستان کے دشمنوں کا ہے۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد حنیف کہتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ اگر مطالعہ پاکستان کی کتابوں کے اصولوں کے مطابق ایک شہری کی تشکیل دی جائے تو وہ شاید حامد میر سے ملتا جلتا ہو گا۔ اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والا، فوج کے ادارے کی عزت کرنے والا، ہندوستان سے دشمن داری والا، اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھنے والا، مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانیت کا کوئی مقابلے کا امتحان ہو تو حامد میر پہلی پوزیشنوں میں سے ایک لے گا۔ وہ سوالمکرتے ہیں کہ اس درجے پر پہنچا ہوا پاکستانی کیسے غدار ہو سکتا یے۔
تاہم حنیف کے خیال میں حامد میر نے کچھ غلطیاں ضرور کی ہیں جو ہمارے دیگر ٹی وی اینکر نہیں کرتے۔ وہ غلطی یہ ہے کہ اسلام آباد اور پنڈی میں بیٹھے ہمارے حکمران جن پاکستانیوں کو مقبوضہ علاقوں کے شہریوں کی طرح دیکھتے ہیں، حامد میر نے ان کی آواز عوام تک پہنچائی ہے۔ کم کم، کبھی کبھی لیکن بات ضرور کی ہے۔ جب غائب کر دیے گئے بلوچوں کے گھر والے پورے پاکستان کا سفر کر کے اسلام آباد پہنچتے ہیں تو انھیں اپنے شو میں صرف حامد میر ہی بلایا ہے۔ جب سلیم شہزاد کی لاش نہر میں پائی گئی تو سب سے آگے بڑھ کر نعرے لگانے والا صحافی حامد میر ہی تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، بلوچستان کے دور دراز ضلعوں میں، سندھ میں جب بھی صحافی قتل ہوا، اغوا ہوا، حامد میر نے آواز اٹھائی۔ جب اس نے خود کراچی میں نامعلوم حملہ آوروں سے چھ گولیاں کھائیں تو شاید سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ حملہ آور کی طرف انگلی اٹھاؤ گے تو وہ ایک شخص ہی نہیں پورے ادارے پر چڑھ دوڑے گا اور اس کے بعد ہر صحافی کو ہر روز اپنے لیے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا۔
محمد حنیف کے مطابق جب ریاستی ظلم قبائلی علاقوں اور سندھ کے چھوٹے شہروں کے چھوٹے صحافیوں سے ہوتا ہوا اسلام آباد کے مرکز تک پہنچا تو کسی کو تو پاگل ہو کر خفیہ حملہ آوروں کے خلاف بولنا ہی تھا۔ تو حامد میر بول ہی پڑے اور بولتے بولتے سب گرہستی والے لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف بھی ڈالتے گئے کہ اگر ہمارے سینیئر فوجی جنرل اپنے گھر میں محفوظ نہیں ہیں تو پھر ہم کس باغ کی مولی ہیں۔
لیکن حنیف ایک چھوٹا سا گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میر صاحب کو ایک سابق فوجی حکمران کو چوہا نہیں کہنا چاہیے تھا کیونکہ یہ ہمارے بزرگوں کی تعلیم نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کا چوہوں نے کیا بگاڑا ہے۔