پاکستان کے دوست اشرف غنی کو دشمن کس نے بنایا؟

سینئر صحافی اور اینکر پرسن سلیم صافی نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی دراصل پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مالی مدد اور تعاون سے ہی صدر بن پائے تھے لیکن پھر ہماری وعدہ خلافیوں اور غلط پالیسیوں نے انہیں پاکستان کے دوست سے دشمن بنا دیا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی بتاتے ہیں کہ اشرف غنی کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ناراضی کی کہانی 2014 سے شروع ہوتی ہے جب وہ افغانستان میں صدارتی امیدوار بنے۔ انکے مطابق غنی کے ساتھ پاکستانی پالیسی ساز اسٹیبلشمینٹ کی ڈیل ہوئی، جسکے تحت انتخابات کے دوران پاکستان نے انہیں سپورٹ کرنا تھا اور جواب میں اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کو رفع کرنا تھا۔ چنانچہ پاکستان نے اشرف غنی کی مالی مدد بھی کی اور افغانستان کے اندر اپنے زیراثرلوگوں کو بھی ان کے حق میں استعمال کیا۔ انتخابی مہم کے دوران اشرف غنی کہتے رہے کہ اصل مسئلہ طالبان نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ چنانچہ صدر بننے کے بعد اشرف غنی پہلے چین اور سعودی عرب گئے اور پھر پاکستان کے دورے پر آئے۔ ان کے دورہ پاکستان سے قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر پاکستانی حکام نے کابل کے دورے کرکے ان کے ساتھ بیشتر معاملات طے کر لئے تھے۔ چنانچہ اشرف غنی ایک نئے سفر کے آغاز کے ارادے کے ساتھ پاکستان آئے۔
سلیم صافی کے مطابق اشرف پہلے افغان صدر تھے جنہوں نے جی ایچ کیو کا بھی دورہ کیا اور یادگارِ شہدا پر پھول چڑھائے۔ اشرف غنی نے حامد کرزئی کے دور میں انڈیا کے ساتھ ہونے والے اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر نظرثانی اور پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ انہوں نے افغان سر زمین کا انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف استعمال روکنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا بھی وعدہ کیا۔ اسکے علاوہ انہوں نے پاکستان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کرنےکا بھی عندیہ دیا۔ لیکن اس سب کے جواب میں وہ پاکستان سے توقع کررہے تھے کہ وہ پورے خلوص کے ساتھ جلدازجلد طالبان کو ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھائے گا اور ڈیل کرانے میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔
صافی کا کہنا ہے کہ اس دورے اور اس کے دوران پاکستان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی وجہ سے اشرف غنی کو افغانستان میں شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا جبکہ انڈیا بھی ان سے ناراض ہوگیا۔ اشرف افغانستان واپس جاکر بتاتے رہے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ طالبان کو مفاہمت پر آمادہ کرے گا اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ پھر اشرف غنی پاکستان کی طرف سے وعدوں کے مطابق اقدامات کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ یہاں نواز شریف عمران خان کے دھرنے سے اپنی حکومت بچانے میں مصروف ہو گئے اور آرمی چیف راحیل شریف بھی اپنے وعدے بھول گے۔ اس دوران اشرف غنی وقتا فوقتا پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت کو ان کے وعدے یاد دلاتے رہے لیکن افسوس کہ یہاں دھرنے ہی دھرنے چلتے رہے۔
چنانچہ صافی بتاتے ہیں کہ اشرف غنی ناراض ہو کر بھڑک اٹھے اور سمجھنے لگے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمینٹ نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ لہازا ایک ضدی انسان ہونے کے ناطے وہ پاکستان کے دوست سے دشمن بن گئے۔ چنانچہ تب سے لے کر اب تک وہ پاکستان پر شدید برہم ہیں اور پاکستان کے ہر قدم کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے بعد پاکستان کا کردار یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس ہو یا ایران اور چین ہو یا پاکستان، افغانستان کا ہر ایک پڑوسی وہاں نیٹو افواج کی موجودگی پر خوش نہیں تھا اور سب کی خواہش تھی کہ وہ یہاں سے نکلیں چنانچہ یہ سب ملک طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ نام تو صرف پاکستان کا لیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران نے بھی ڈٹ کر جبکہ روس نے کسی حد تک طالبان کی مدد کی، تاہم قطر ڈیل کے بعد ان سب کی اپروچ تبدیل ہوگئی ہے اوریہ افغانستان میں تنہا طالبان کی حکومت یا پھر خانہ جنگی نہیں چاہتے۔
صافی کہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ دس ماہ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے محمد صادق نے طالبان کو سمجھانے اور افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کی ہیں اور کررہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں ماضی کی بنیاد پر یہ تاثر عام ہے کہ طالبان کی فتوحات کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے لیکن دوسری طرف مذکورہ افراد دن رات ایک کئے ہوئے ہیں کہ طالبان کو طاقت کے بل پر کابل اور صوبائی ہیڈکوارٹرزپر قبضہ کرنے سے روکیں۔ صافی کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ طالبان جنگ بندی کا پاکستان کامطالبہ نہیں مان رہے اور اس بات پر ناراض ہیں کہ پاکستان نے ماسکو میں روس، چین اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس اعلامیے پر کیوں دستخط کئے جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں افغان طالبان کی امارات اسلامی قابلِ قبول نہیں۔ پاکستان نے چین اور ایران جیسے ممالک سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ طالبان کو سیاسی حل پر آمادہ کرنے میں مدد کریں لیکن دوسری طرف ان کوششوں کی قدردانی کی بجائے اشرف غنی اور ان کی حکومت کے حمداللہ محب اور امراللہ صالح جیسے لوگ ہر روز اپنے مخالفانہ بیانات کے ذریعے پاکستان کو طیش دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
چنانچہ سلیم صافی کا کہنا ہے کہ اب پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی یہ رائے بن رہی ہے کہ اشر ف غنی شعوری طور پر طالبان کے ساتھ مفاہمت نہیں چاہتے۔ دوسری طرف اشرف غنی کو یہ شک ہے کہ پاکستان مفاہمت کی کوششوں کی آڑ میں ان کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ اب اگر یہ صورتحال رہی تو اس کا پاکستان کو تو نقصان ہوگا ہی لیکن پہلے افغانستان اور اشرف غنی کو نقصان ہوگا۔اس لئے دونوں فریقوں کو چاہئے کہ وہ ماضی سے نکلیں اور نئی حقیقتوں کے مدنظر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، ورنہ دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔