پاک امریکہ تعلقات میں خرابی کے واضح اشارے سامنے آنے لگے

امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں خرابی کے اب واضح اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر فوج میں کم عمر سپاہی بھرتی کرنے کا الزام لگا کر اسے چائلڈ سولجرز پروینشن ایکٹ لسٹ میں شامل کیلئے دیا گیا ہے جس پر پاکستان کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سفارتی حلقوں میں اسے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کا عکاس قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی رپورٹ کے صفحہ نمبر 49 پر پاکستان کا تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے، جو کم عمر سپاہیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اس فہرست میں افغانستان، برما، جمہوریہ کانگو، ایران، عراق، لیبیا، نائجیریا، صومالیہ، سوڈان، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن بھی شامل ہیں۔ لیکن اس صفحے پر پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کی وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔ تاہم صفحہ نمبر 440 پر یہ لکھا گیا ہے کہ اپریل 2019 میں پاکستانی فوج نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ تیس ہزار سے زائد مذہبی سکولوں کو، بشمول مدارس، حکومت کے کنٹرول میں لائے گی۔ ان میں سے کچھ مذہبی مدرسے کم عمر بچوں کو جبری سپاہی بنانے میں ملوث ہیں۔
مبصرین کے مطابق پاک فوج کے افسران کو بہترین عسکری تربیت امریکا سے ہی حاصل ہوتی ہے جس پر حال ہی میں بائیڈن انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی ہے۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے لسٹ میں شامل کیا جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں خوشگواریت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین نے بتایا، ” بظاہر اس فیصلے کی کوئی منطق نہیں ہے کیونکہ پاکستان حالت جنگ میں نہیں، نہ ہی پاکستان کسی اور ملک کے ساتھ جنگ کر رہا ہے تو اس طرح سے کم عمر سپاہیوں کو زبردستی بھرتی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن پاکستانی آرمی پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے اور اس فیصلے سے بھی پاکستان کی فوج متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘
معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا، "پاکستانی فوج کو بہترین اور معیاری فوجی تربیت امریکا میں ملتی ہے۔ امریکہ نے اس پر پابندی لگائی ہوئی تھی لیکن گزشتہ برس اس پابندی کو ہٹایا گیا تھا گو کہ کرونا کی وجہ سے یہ ٹریننگ نہیں ہو سکی لیکن اب اس فیصلے کی وجہ سے بھی ٹریننگ نہیں ہو سکے گی، جس سے لازمی بات ہے کہ پاکستان کی فوج کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ عالمی امن دستوں میں پاکستان کی شمولیت بھی مشکل ہو جائے گی، جس سے پاکستان کے سپاہیوں اور افسران کو بہت مالی فائدہ ہوتا ہے۔‘‘
عائشہ صدیقہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ واشنگٹن کے لئے اب اسلام آباد کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت ختم نہیں ہو رہی بلکہ ختم ہو چکی ہے۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ کی وجہ سے پاکستان کو جو رعایت مل رہی تھی اب وہ ختم ہوگئی ہے۔ نہ صرف امریکہ کی طرف سے انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور دوسرے مسائل پر پاکستان کے حوالے سے رپورٹ آسکتی ہیں بلکہ یورپی یونین کی طرف سے بھی ان مسائل پر رپورٹس آئیں گی۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ یہ سب دباؤ کے ہتھکنڈے ہیں۔ انہوں نے بتایا، "آنے والے وقتوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی نہیں ہوگی۔ تاہم تعلقات پہلے کی طرح خوشگوار بھی نہیں ہوں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسی طرح واشنگٹن کے تابع ہو جائے جیسے کہ پچاس کی دہائی میں تھا لیکن پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دے گا اور نہ ہی کسی نئے تصادم کا حصہ بنے گا جس پر امریکہ چراغ پا ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘