پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کرنے کی فوری وجہ کیا بنی؟

وفاقی حکومت کی جانب سے پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کی فوری وجہ ضلع خیبر میں 11 اکتوبر کو ہونے والے’پشتون جرگہ‘ منسوخ کرنے سے انکار بنا۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو یہ جرگہ منعقد کرنے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ تحریک طالبان نے اس کی حمایت کر دی تھی، لیکن پی ٹی ایم کی قیادت اپنے اعلان پر قائم رہی لہذا پابندی کا شکار ہو گئی۔ اس جرگے میں مختلف سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مدعو کیے گے ہیں۔ منظور پشتین کے مطابق اس جرگے کا مقصد پشتون خطے میں جاری بدامنی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے مشترکہ بیٹھک کرنا یے، جہاں اس کے حل کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اسی جرگے کے منتظمین کے خلاف حالیہ دنوں میں کریک ڈاؤن بھی کیا گیا تھا، جس کے خلاف عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی۔ دوران سماعت پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی ایم کو جرگہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ تاہم 6 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے اچانک ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے پی ٹی ایم پر ریاست مخالف بیانیہ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے پابندی عائد کر دی۔

وزارت داخلہ کے نوٹی فکیشن میں بتایا گیا کہ پی ٹی ایم کا نام شیڈول فور کے تحت کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ نے اپنے نوٹی فکیشن میں کہا کہ ’ٹھوس شواہد کی روشنی میں پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘ نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ ’پی ٹی ایم ملک دشمن بیانیے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہے۔وفاقی وزارت داخلہ نے اتوار کو جاری کردہ اعلامیہ میں کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت اسے کالعدم تنظیموں کی آفہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔

حکومتی پابندی کے اعلان کے بعد پی ٹی ایم مرکزی کور کمیٹی کے رکن اور ’پشتون جرگے‘ کے ترجمان عبدالصمد نے کور کمیٹی میٹنگ کے فیصلوں کے حوالے بتایا کہ ’ہمارے کارکنان نے جیل، تشدد، گرفتاریاں اور پر قسم  کی صعوبتیں گذشتپ چھ سالوں سے برداشت کی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ریاست جتنا کر سکتی تھی ، ہمارے ساتھ کیا ہے تو اب پابندی لگانے کے بعد مزید وہ ہمارے ساتھ کیا کر سکتے ہیں اور اسی وجہ سے پابندی لگانے سے ہماری تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘ عبدالصمد نے کہا کہ ’ہم نے تحریک میں شہادتیں بھی دی ہیں اور جنازے بھی اٹھائے ہیں لیکن ہم پابندی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔‘

اسلام آباد میں بلائے فوجی دستوں کو گولی چلانے کا اختیار دے دیا گیا

پشتون جرگے کے حوالے سے عبدالصمد نے بتایا کہ ’کور کمیٹی میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ جرگہ ہر صورت میں ہو گا اور ابھی بھی کثیر تعداد میں لوگ جرگے کے مقام پر جمع ہیں۔‘ یاد رہے کہ پی ٹی ایم تقریباً ساڑھے چھ برس قبل قائم ہوئی تھی اور اس کے قیام کا مقصد پشتونوں کو درپیش سیکیورٹی، معاشی اور انتظامی مسائل پر آواز اٹھانا بتایا جاتا ہے۔

پابندی پر رد عمل دیتے ہوئے منظور پیشتین نے کہا ہے کہ جرگے کے منتظمین کےخلاف ریاستی جبر و بربریت کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب یہ سلسلہ پختونخوا سے بلوچستان کے پختون اضلاع تک پہنچ گیا ہے۔ ‏منظور پشتین کے مطابق پشتون جرگے کے گرفتار کیے گئے رہنماؤں اور منتظمین کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان عرصہ دراز سے ان سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے جو عدم تشدد پر کاربند ہو کر اپنے نصب العین کے حصول کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ایسی تنظیموں کو کھلم کھلا چھٹی دی جا رہی ہے جو پرتشدد کارروائیوں اور سرکاری و نجی املاک تباہ کرنے میں مصروف رہی ہیں۔

پی ٹی ایم سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ منظور پشتین پابندی کے بارے میں ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشورے کر رہے ہیں۔ ان کے بقول زیادہ تر ساتھی انہیں وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ اس کی مرکزی قیادت کسی بھی صورت 11 اکتوبر کے پختون قومی جرگے کی معطلی یا اسے ملتوی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی مبینہ طور پر جاری کیے گئے بیان میں پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام پختون قومی جرگہ کی حمایت کی ہے۔

Back to top button