کیا پنجاب میں PTI اپنے یوتھیے سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو گی؟
پنجاب حکومت نے تحریک انصاف کو صوبے میں شرپسندانہ احتجاجی سیاست کی اجازت نہ دینے اور بد امنی پھیلانے والے یوتھیوں کی ٹھکائی کیلئے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں دی جانے والی احتجاجی کالز کی مسلسل ناکامی کے بعد جہاں پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف پنجاب کے بڑے شہروں میں 11 سے 14 اکتوبر تک احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔
وہیں پنجاب حکومت نے پنجاب کے 14 شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر کے یوتھیوں کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی شرپسندانہ احتجاجی سرگرمیوں سے دور رہیں ورنہ ان کی دھلائی اور ٹھکائی یقینی ہے۔
تاہم اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ ’پی ٹی آئی نے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ حکومتی رکاوٹوں کے پیش نظر پلان بی اور سی بھی بنایا جا رہا ہے۔‘دوسری حکومت حکومت پنجاب ہر صورت پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کے لیے پرعزم ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پانچ اکتوبر کو لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں بھی پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دی تھی تاہم مقررہ تاریخ پر احتجاج تو نہ ہو سکا تاہم دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق سینکڑوں افراد گرفتار کیے گئے جن میں سے 129 اب بھی گرفتار ہیں۔
جبکہ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف 25 مختلف تھانوں میں توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت 25 ایف آئی آرز بھی درج کی گئیں۔
تاہم ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی اب پھر مختلف شہروں میں احتجاج کی کال کتنی موثر ہوگی؟ کیا پی ٹی آئی یوتھیوں کو میدان میں لانے میں کامیاب ہو گی؟اور پنجاب سے تحریک انصاف کے احتجاج کی قیادت کون کرے گا؟
کیونکہ حماد اظہر سمیت پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت مختلف مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے روپوش یا گرفتار ہے۔
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں احتجاج پی ٹی آئی کا حق ہے، لیکن اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومتی کارروائیاں اپوزیشن کو خاموش کروا دیں گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن کے پاس صرف احتجاج کا ہی اختیار ہوتا ہے، اب بھی اسی طرح احتجاج کی کال دی گئی جیسے پہلے دی جاتی رہی ہے، لیکن ایسی صورت حال میں قبل از وقت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اپوزیشن حکومتی کارروائیوں سے خوفزدہ ہوکر خاموشی سے بیٹھ جائے۔‘
حسن عسکری کا مزید کہنا تھا: ’ہمارے ملک میں ہر جماعت سیاسی جدوجہد بھی اپنے انداز میں کرتی ہے۔ کوئی مزاحمتی سیاست کرتی ہے اور کوئی صرف جلسے جلوسوں میں علامتی احتجاج کرکے اپنا موقف پیش کرتی ہے۔
اگر دیکھا جائے کہ حکومت اپوزیشن کی مثبت تجاویز کو بھی تسلیم نہیں کرتی، جس کے بعد ردعمل میں شدت آتی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا: ’کسی بھی سیاسی جماعت کا احتجاج حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور مظاہرین سے دھکم پیل یا گرفتاریوں سے ہی کامیاب تصور ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کا پنجاب میں احتجاج بھی کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
وجاہت مسعود نے مزید کہا: ’بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی سیاست شروع سے ہی اداروں میں تعیناتیوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی مدت ملازمت میں توسیع یا وقت پر ریٹائرمنٹ کے گرد گھومتی ہے۔ کسی آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع ہو یا کسی چیف جسٹس کی تقرری یا ریٹائرمنٹ، اس پر پی ٹی آئی مزاحمتی سیاست کا سہارا لیتی رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اب بھی پی ٹی آئی عدلیہ میں موجود اپنے حامی ججوں کو بااختیار بنانے کے لیے آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔
خیبرپختونخوا میں حکومت ملنے کے باوجود وہاں عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے جلسے جلوسوں اور بدامنی پھیلانے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، مگر حکومت وقت نے پہلے اسلام آباد میں احتجاج ناکام بنایا اور اب پنجاب میں بھی کامیاب احتجاج دکھائی نہیں دیتا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’پنجاب میں پی ٹی آئی کو قیادت کے فقدان کا بھی سامنا ہے، اسی لیے شاید مختلف شہروں کی سطح پر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن کسی ایک شہر میں احتجاج کنٹرول کرنے سے مختلف شہروں میں موجود مطاہرین کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے، اس لیے آئینی ترامیم بھی ہوں گی اور اسلام آباد میں شنگھائی کانفرنس بھی پر امن طریقے سے ہو جائے گی تاہم پی ٹی آئی کا احتجاج ناکام رہے گا۔‘