پیپلز پارٹی نے فوج کی خوشنودی کے لئے PDM نہیں چھوڑی
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لئے خود کو اپوزیشن اتحاد سے دور کیا ہے۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ رواں برس مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے بعد انہوں نے لیڈر آف اپوزیشن بننے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی کو اپنا استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم پارٹی قیادت کے اصرار پر انہیں اپوزیشن لیڈر بننا پڑ گیا۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ’میں نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین کو درخواست کی تھی کہ میرا استعفیٰ قبول کرلیں اور میری جگہ کسی اور کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنا دیں، مگر پارٹی نہیں مانی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گے ایک انٹرویو میں حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات پر اپنی پارٹی کے رویے کی وضاحت کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا: ’یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلز پارٹی نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے اختلاف کیا۔ پیپلز پارٹی میرٹ پر فیصلے کرتی ہے۔‘انہوں نے کہا: ’جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے، ہمارا اور دیگر جماعتوں کا موقف ایک ہے اور ہم عوام کے حقوق کے لیے ایوان کے اندر اور باہر مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی نے ہی مشترکہ اپوزیشن کا آئیڈیا دیا تھا۔ اختلافِ رائے تب آیا جب پی ڈی ایم نے خواہش کی کہ ہم قومی اسمبلی کی سیٹوں سے استعفے دے دیں۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم پی ڈی ایم کا بیانیہ مکمل طور پر قبول کرتے ہیں، ہم استعفے تیار رکھیں گے اور ہم استعفے دیں گے، اگر تمام آپشنز ختم ہوگئے۔‘
بقول گیلانی پی پی پی کا پی ڈی ایم سے اختلاف رائے تب ہوا جب ان کی جانب سے آخری آپشن کو پہلے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کے بعد سینیٹ میں یوسف رضا گلانی کے اپوزیشن لیڈر بننے کی وجہ سے یہ دراڑ مزید گہری ہوگئی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں پارلیمنٹ اور سینیٹ میں زیادہ اکثریت والی اپوزیشن جماعت کا ہی اپوزیشن لیڈر منتخب ہوتا ہے۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے 21 جبکہ ن لیگ کے 16 ووٹ ہیں، اس لحاظ سے سینیٹ میں سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ ہماری جماعت چاہتی تھی کہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی سیٹ ملنی چاہیے تھی۔ اگر اس وقت استعفوں کی بات نہ ہوتی تو چیزیں مختلف ہوتیں۔‘ تاہم مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی سے شکوہ ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر ان سے اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں سے مشاورت نہیں کی۔
احسن اقبال کے اس الزام پر کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں اپنے ووٹ بڑھانے کے لیے مخصوص سینیٹرز کی مدد‘ لی تھی، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ: ’میں اس پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہتا۔
پیپلز پارٹی نے آزاد اور غیر جانبدار سیاستدانوں کے ووٹ لیے۔ ہماری مہم کے ذریعے تحریک انصاف کے بھی کچھ اتحادیوں نے ہمیں ووٹ دیے اور بھی کئی لوگ مجھے اب بھی ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔‘
جب یوسف رضا گیلانی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چیئرمین سینیٹ بن جائین گے تو انہوں نے کہا: ’جہاں تک چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کی بات ہے، اکثریت میں لے چکا ہوں۔ میرے 49 ووٹ ہیں اور موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے 48 ووٹ ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا ہے اور اس معاملے پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔ عدالت ہی اب فیصلہ کرے گی۔‘ دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’ہم نے پہلے بھی مخلوط حکومت بنائی ہوئی ہے، ہمیں دوبارہ یہ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہوگی تو اکثریت ہمیشہ بلاول بھٹو کے لیے ہی ووٹ کرے گی۔‘