عمران آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کےلیے نا اہل کیوں قرار پائے؟
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہی سہی ساکھ کا جنازہ نکالتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے چانسلر شپ کےلیے ہونے والے انتخابات میں نااہل قرار دئیے جانے بعد یہ سوال زیر بحث ہے کہ وہ کون سی وجواہات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان چانسلر شپ کے الیکشن کےلیے نا اہل قرار دیا گیا ہے؟ اس حوالے سے جہاں ایک طرف عمران خان کی بطور ملزم قید، شدت پسند رویہ، مبینہ کرپشن اور بد دیانتی کو اس نااہلی کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے اپنے ایک مضمون میں عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کا تمام کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے امیدواروں کی فہرست شائع ہونے سے قبل برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ایک مضمون شائع کیا جس میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان پر خوب تنقید کے نشتر چلائے گئے۔ ٹیلی گراف میں شائع مضمون میں کہا گیا ہے کہ عمران خان خود پسند شخصیت کے مالک ہیں، اور ہیرا پھیری سے وزیر اعظم بنے ہیں اس لیے وہ چانسلر کے لیے نااہل ہیں۔
ٹیلی گراف نے لکھا کہ عمران خان اگر منتخب ہوئے تو مغرب دشمنوں کی مدد کریں گے، وہ طالبان کے معترف بھی رہے ہیں، انہیں 1980 کی دہائی میں ایک کرکٹر یا جریدوں ان کی احمقانہ داستانوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
مضمون میں لکھا گیا کہ ان کا برطانیہ میں ریکارڈ اچھا نہیں رہا، ان کی اس شخصیت اور کردار کے باوجود برطانیہ میں کچھ شخصیات اب بھی ان کی حمایت کر رہی ہیں، لیکن بہت سارے لوگ جو اصل میں ان کو جانتے ہیں وہ تنقید کر رہے ہیں۔
ٹیلی گراف کے مطابق عمران خان 20ویں صدی کے کرکٹر تھے، اور انہوں نے خود کو 21ویں صدی کے بظاہرنیم اسلام پسند کے طور پر ظاہر کیا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ بالکل بھی نہیں ہیں۔
عمران خان ان امیدواروں میں شامل تھے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کا اگلا چانسلر بننے کے لیے مقابلہ کر رہے تھے لیکن پاکستان کے سابق وزیر اعظم، جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کرس پیٹن کی جگہ لینے کے قابل نہیں۔
اخبار میں لکھا گیا کہ کرس پیٹن اور عمران خان میں بہت فرق ہے، عمران خان خود پسند جب کہ کرس پیٹن خود پسند نہیں ہیں۔ عمران خان کو اگلے چانسلر کے طور پر منتخب کرنا ناصرف دنیا کے کونے کونے سے نوجوانوں کو متاثر کرے گا بلکہ یہ آکسفورڈ کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی ایک روشن مثال کے طور پر بھی بلند کرے گا۔مزید لکھا گیا کہ عمران خان اس ماہ 72سال کے ہوجائیں گے، کیا سابق طلبا اور عملہ جو آکسفورڈ کے الیکٹورل کالج کو تشکیل دیتے ہیں، وہ آکسفورڈ کو ہزار سالہ تاریکی سے باہر نکالنے اور ایک ایسے امیدوار کو ووٹ دے کر ایک جامع ادارہ بنانے کے لیے تیار ہیں جس نے طالبان کی کھلے دل سے تعریف کی تھی؟’وہ طالبان جنہوں نے حال ہی میں افغانستان کی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تھی‘۔
اندرونی اختلافات کا شکار PTI اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگی
اخبار کے مطابق 2018 عمران خان ہیرا پھیری کے ووٹ سے وزیر اعظم منتخب ہوئے جسے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے طاقتور ادارے کی واضح، جارحانہ، اور بے جا مداخلت قرار دیا۔
عمران خان نے مغربی اقدار کی مذمت کی اور آزادی اظہار رائے پر تنقید کی۔ گزشتہ اکتوبر میں، پاکستان کے الیکشن کمیشن نے ان کو توشہ خانے کے مقدمے کا مجرم قرار دیا، انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا اور انہیں 5سال کے لیے عوامی عہدے سے روک دیا۔
ٹیلی گراف نے فنانشل ٹائمز کی ایک تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ امریکا کی جیل میں قید ایک شخص جس کو 291سال کی ممکنہ سزا دی گئی ہے، اس پاکستانی نے ایک فلاحی ادارے کے ذریعے عمران خان کی پارٹی کو لاکھوں ڈالر کی فنڈنگ کی ہے۔ اس لئے ایسے شخص کو آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بنایا جانا قطعا مناسب نہیں۔
خیال رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کے اعلان پر برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اپنی ایک خبر میں نہ صرف سابق وزیر اعظم کے ساتھ ’ڈس گریس‘ کا لفظ استعمال کیا تھا بلکہ اپنیہ خبر میں بانی پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا تھا جبکہ بعد ازاں معروف برطانوی اخبار دی گارجین نے عمران خان کو عورت دشمن طالبان خان قرار دیتے ہوئے ان کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے پر تقرری کے حوالے سے متعدد سوالات بھی اٹھائے تھے۔
یاد رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق کانووکیشن ممبرز رواں برس اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں آن لائن ووٹنگ کے ذریعے نئے چانسلر کا انتخاب کریں گے، نیا چانسلر 10 برس کے لیے اپنی ذمے داریاں سرانجام دے گا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر کے منصب کے لیے ایسی شخصیات کی نامزدگی کی خواہاں ہوتی ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے شبعے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہوں بلکہ ان کی خدمات کو بالعموم قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور انتخاب کی صورت میں وہ شخص نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی یونیورسٹی کی ساکھ میں بہتری کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہو۔