چیف جسٹس کیخلاف بولنے والا بری طرح پھنس گیا

سپریم کورٹ نے 2 جولائی کے روز بھری عدالت میں اپنی دو بیویوں اور سات بچوں کا واسطہ دے کر غیر مشروط معافی مانگنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما مسعود الحمن کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کے خلاف الزامات عائد کرنے پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کےخلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والے پیپلزپارٹی کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جناب نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ جب مجھے سپریم کورٹ بلائے گی تو میں اسے اسکی اوقات یاد دلا دوں گا۔ اب تم ہمیں ہماری اوقات یاد دلاو۔ اس پر مسعودالرحمان نے کہا کہ وہ اپنے خاندانی معاملات کی وجہ سے بہت سخت پریشان تھا اس لیے پتہ نہیں کیا اول فول بک دیا لہٰذا اسے غیر مشروط معافی دے دی جائے۔ مسعود نے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے والد کی طرح ہیں لہذا میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں کہ مجھے معاف کر دیا جائے۔ تاہم ججوں نے آئندہ سماعت پر اسکے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
یاد رہے کہ 2 جولائی کو جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 4 رکنی بینچ نے توہین آمیز بیان کی ویڈیو پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی تھی۔ دوران سماعت مسعود الرحمٰن نے کہا ہے کہ میری 2 بیویاں اور7 بچے ہیں، اکیلا کمانے والا ہوں، عدالت کے پاؤں پکڑتا ہوں۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ تو کہہ رہے تھے کہ عدالت بلائے گی تو اوقات یاد دلا دوں گا، عدالت نے بلا لیا ہے اب ہمیں اوقات دکھائیں۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز سمیت تمام کیسز کا بھی جائزہ لیں گے۔ لیکن مسعود الرحمٰن نے سپریم کورٹ سے تحریری طور پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ عدالتوں اور اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو گفتگو آپ نے کی وہ کس کو متاثر کرنے کے لیے تھی؟ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کھوج لگائے کہ کس کے کہنے پر یہ تقریر کی گئی، کیونکہ سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر ایسی تقریر ممکن نہیں۔
اس پر رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ میں اپنی والدہ کی وفات اور روز روز کے گھریلو جھگڑوں سے بہت پریشان ہوں، اسی پریشانی کی وجہ سے معلوم نہیں کہ میں نے کیا بول دیا۔ اپنے تحریری معافی نامے میں رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ججز اسکے والد کے برابر ہیں لہازا مجھے معاف کر دیں، اس نے کہا کہ جس طریقے سے بھی عدالت مجھے حکم دے گی میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جناب نے یہ سب کچھ بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے سوچنا تھا، تم نے چیف جسٹس پر حرام کی کمائی کھانے کا الزام کیسے عائد کیا؟ تم نے کس بنیاد پر چیف جسٹس کو سیکٹر انچارج کہا؟ انہوں نے مزید کہا کہ تمہیں ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی کا تو بخوبی علم تھا، چیف جسٹس کا ایٹم بم اور میزائل سے کیا تعلق؟ ایسے تو ہر کوئی توہین آمیز تقریر کر کے معافی مانگ لے گا۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم نے اعتراف جرم کر لیا، اب شواہد کی ضرورت نہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت آئین و قانون کے مطابق ہی چلے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ مسعودالرحمان تم نے چیف جسٹس گلزار کو ایک سیاسی جماعت کا سیکٹر انچارج کہا، یہ سب باتیں تمہیں کس نے کرنے کو کہا؟ اس پر مسعود الرحمٰن عباسی نے کہا کہ مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا، مین نے سب باتیں خود کی ہیں، لیکن مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔
جواب میں عدالت کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ بتائے گی کہ مسعود الرحمٰن عباسی نے یہ تقریر کیوں کی؟ عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ دورانِ سماعت وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حکام نے بتایا کہ مسعود الرحمٰن عباسی سے تفتیش کر رہے ہیں، عدالت سے 3 روز کا ریمانڈ لیا ہوا ہے، جو بھی مسعود الرحمٰن کے پیچھے ہوا اس کے ساتھ نرمی نہیں کریں گے۔ عدالت نے کیس میں اٹارنی جنرل کو پراسیکیوٹر مقرر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بینچ کی دستیابی پر کیس سماعت کے لیے مقرر کریں گے۔
خیال رہے کہ سینیئر سول جج عامر عزیز خان نے چیف جسٹس گلزار کے خلاف توہین آمیز بیان دینے ہر پیپلز پارٹی کراچی کے عہدیدار مسعود الرحمٰن کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا، رہنما پیپلز پارٹی کو گزشتہ ہفتے ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔
قبل ازیں 23 جون کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے خلاف مسعود الرحمٰن کے توہین آمیز بیان کا نوٹس لیا تھا جس کی سماعت کے بعد رہنما پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور ان سے غلطی ہوگئی۔ ادھر ایف آئی اے نے بھی سپریم کورٹ میں عبوری رپورٹ جمع کروادی جس میں کہا گیا کہ مسعود کی جانب سے عدلیہ کے بارے میں توہیں آمیز بیان کی ویڈیو حقیقی اور غیر تدوین شدہ ہے اور ویڈیو اب تک سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ویڈیو یا دورانیہ ایک منٹ 15 سیکنڈ ہے جسے پہلے فیس بک پر اپلوڈ کیا گیا اور بعدازاں مختلف لوگوں نے یوٹیوب سمیت مختلف ویب سائٹ پر پوسٹ کیا۔
مسعود نے اپنی تقریر میں چیف جسٹس گلزار کو بار بار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے حوالے سے عدالتی احکامات جاری کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایک سیاسی جماعت کا سیکٹر انچارج قرار دے دیا تھا۔