عمران خان نے فضل الرحمٰن کا نام مولانا ڈیزل کیوں رکھا تھا؟
ماضی میں فوجی اسٹیبلشمینٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر وزیر اعظم بننے والے بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنے سیاسی مخالف مولانا فضل الرحمن کو دور اقتدار میں ڈیزل اور فضلو کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، لیکن آج تحریک انصاف کی قیادت مولانا کو اپنا باپ تسلیم کر کے ان کے گن گا رہی ہے۔ ایسے میں جو سوال ذہن میں اتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر مولانا کا نام ڈیزل کیوں ڈالا گیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جب مولانا فضل الرحمٰن پی پی پی کے اتحادی تھے اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے تو تب کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مولانا افغان طالبان کو ڈیزل کے پرمٹ فروخت کر رہے ہیں کیونکہ تب افغانستان میں ملا عمر برسراقتدار تھے جن سے مولانا کے اچھے تعلقات تھے۔
بعد ازاں عمران خان نے پیپلز پارٹی کا اتحادی بننے پر مولانا کو ڈیزل کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ اس دوران مولانا اور نواز شریف کے مثالی تعلقات قائم ہو گئے لیکن عمران خان مولانا کو ڈیزل کہنے سے باز نہیں آئے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد عمران خان مولانا کو اور بھی شدت سے ڈیزل کہنا شروع کر دیا۔ عمران اس معاملے میں اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ گے اور ایک بھرے جلسے میں یہ بھی کہہ دیا کہ جنرل باجوہ کے منع کرنے کے باوجود وہ مولانا کو ڈیزل کہہ کر ہی پکاریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا کا یہ نام میں نے نہیں بلکہ عوام نے رکھا ہے، اس کے بعد انہوں نے 9 مرتبہ مولانا کو ڈیزل کہہ کر مخاطب کیا اور پھر اسی تقریر میں نیوٹرل کو جانور قرار دے دیا۔
سینیئر صحافی حامد میر مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل قرار دینے کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1993 میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت اقتدار میں آئی تو مولانا فضل الرحمٰن ان کے اتحادی تھے اور خارجہ امور کے کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔ اسی دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی، تو مولانا فضل الرحمٰن پر مسلم لیگ ن نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مولانا طالبان کو ڈیزل کے پرمٹ فروخت کر رہے ہیں جن کا کوٹہ انہیں وفاقی حکومت سے مل رہا ہے۔ حامد میر نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزام تو لگا لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔ بعد میں جب پرویز مشرف 2002 کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، تو مسلم لیگ ق نے یہی الزام دہرایا، لیکن تب عمران خان مولانا اس معاملے پر مولانا کا دفاع کیا کرتے تھے۔ لہذا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ محض ایک الزام ہے اور مولانا کے مخالفین صرف ان کی شخصیت کا تاثر خراب کرنے کے لیے یہ الزام لگاتے ہیں۔
حامد میر نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے یہ نام پہلے عطاالحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں استعمال کیا تھا، جو بعد میں سیاسی مخالفین نے ’اچھل اچھل‘ کر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس حوالے سے حامد میر نے سال 2019 میں روزنامہ جنگ میں ایک کالم بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ مولانا کے سیاسی مخالفین اس اصطلاح کو طعنے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نجات چلانے میں مصروف تھے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عطاالحق قاسمی نے اسی الزام پر اپنے ایک اور کالم میں سال 2006 میں مولانا سے معافی بھی مانگی تھی۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ یہ الزام سراسر جھوٹ ہے اور اگر سچ ہوتا تو موجودہ اور سابق حکومتوں کو مولانا کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے تھے۔
کیا پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر جمی برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے؟
حامد میر کے مطابق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حکومت کی جانب سے ڈیزل پرمٹ شخصیات کو نہیں بلکہ پیٹرول پمپس کو جاری کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ایک دن انہوں نے جے یو آئی کے رہنما مفتی نظام الدین شامزئی سے اس الزام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے ’گھٹیا‘ الزام قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ آپ عطا الحق سے پوچھیں کہ انہوں نے یہ کالم کیوں لکھا تھا۔ ٹی وی سکرین پر ایک طویل عرصے تک غیرحاضر رہنے کے واپس لوٹنے والے حامد میر کے مطابق ’میں نے عطاالحق سے بھی پوچھا تھا لیکن انہوں نے ایک اخبار کی خبر کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیا تھا لیکن عطاالحق قاسمی کے پاس اس حوالے سے مزید کوئی تفصیل نہیں تھی کہ پرمٹ کس سے لیا اور کتنے میں لیا۔‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بغیر ثبوت کے جعلی خبر کیسے شائع کروائی جاتی ہے اور پھر اسے سیاسی بیانیے کا حصہ بنانے کی مخالفین کوشش کرتے ہیں۔
حامد میر سے جب پوچھا گیا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن وزیر پیٹرولیم تھے اور انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ڈیزل پرمٹ بیچے تھے، تو اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی پیٹرولیم کے وزیر نہیں رہے ہیں بلکہ وہ بے نظیر حکومت میں امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد بتاتے ہیں کہ جس زمانے میں طالبان افغانستان میں برسر اقتدار تھے تب پاکستانی قبائلی علاقہ جات افغانستان کے لیے ٹرانزٹ روٹ ہوتے تھے جس طرح اب بھی ہیں اور تجارت اسی راستے سے کی جاتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے لیے گندم اور ڈیزل کے پرمٹ لیے جاتے تھے یعنی یہاں سے افغانستان ڈیزل برآمد کیا جاتا تھا اور اس کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔ شمیم شاہد نے بتایا کہ ’یہی الزام مولانا فضل الرحمٰن پر لگایا جاتا ہے کہ ان کو بے نظیر حکومت نے ڈیزل کا پرمٹ دیا تھا۔‘ تاہم تحقیق کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف ڈیزل پرمٹ لینے یا اس سے منسلک کسی قسم کی کرپشن کا کوئی الزام یا ریفرنس کبھی سامنے نہیں آیا۔
اسی الزام کے بارے میں حامد میر نے ایک پروگرام میں مولانا فضل الرحمٰن نے سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’اگر میں نے کوئی ڈیزل پرمٹ لیا ہے تو پرمٹ تو بغیر دستاویزات کے نہیں لیا جاتا تو اگر پرمٹ لیا ہے، تو اس کے ثبوت سامنے لے کر آئیں۔