ڈینگی ختم کرنے کے لیے مچھر کو بانجھ کیا جائے گا

پاکستان میں رواں برس ڈینگی وائرس تیزی سے پھیلا ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم اب ملک میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ڈینگی مچھر کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے بانجھ بنانے کے پروگرام کا تجرباتی بنیادوں پر آغاز کیا جا رہا ہے ۔
ڈینگی وائرس ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے حکومتی سطح پر آگاہی مہم کے علاوہ مختلف عملی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔اسلام آباد میں پاکستان کے قومی ادارۂ صحت میں وبائی امراض کے ماہر اور ڈینگی سیل کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ڈینگی مچھر کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے بانجھ بنانے کا پروگرام تجرباتی بنیادوں پر شروع کیا جا رہا ہے۔اس سے قبل یہ منصوبہ بنگلہ دیش میں امریکی تعاون سے جاری ہے جہاں اس سال ڈینگی کے مرض کی وجہ سے 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر صفدر کے مطابق پاکستان بھی تجرباتی بنیادوں اس پروگرام کی شروعات کر رہا ہے جس کے نتائج کی بنیاد پر اس پروگرام کو مختلف علاقوں میں آزمایا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہنگامی بنیادوں پر صوبوں سے مل کر صورتحال کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں سب سے پہلا کام مریضوں کو مناسب سہولتیں فراہم کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک طویل مدتی پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے جس میں عالمی ادارۂ صحت کی گائیڈ لائنز اور دنیا بھر میں کیے جانے والے مختلف تجربات سے فائدہ اٹھانا شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈینگی وائرس مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ نر اور مادہ مچھر جب ملاپ کرتے ہیں تو اس کے بعد مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان اور پوری دنیا میں ڈینگی پھیلانے والا مچھر ایڈیِز ایجپٹی مون سون بارشوں کے دوران اپنی جگہ بناتا ہے۔ایڈیِز ایجپٹی مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف کھڑے پانی میں ہوتی ہے۔ اس کا بڑا موافق ماحول گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔ڈینگی کا مچھر مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے جس کے بعد غیر موافق موسم کے سبب سے اس کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈینگی کے مچھر میں اضافے کا ایک بڑا سبب لائف سٹائل بھی ہے جس میں پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال ہے۔
ایوب ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ، ایبٹ آباد، کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر جنید کے مطابق ڈینگی بخار کی علامات میں سب سے پہلی علامت شدید قسم کا سر درد ہے۔ اس کے علاوہ مریض کو پٹھوں اور جوڑوں میں نہایت شدید درد ہوتا ہے۔ یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑ جاتی ہیں اور جلد کھردری ہو کر اترنے لگتی ہے۔اس کے علاوہ مریض کو نہایت تیز بخار ہو جاتا ہے جبکہ کچھ مریضوں کی ناک اور مسوڑھوں سے خون بھی بہنے لگتا ہے۔سخت بخار کے باعث مریض کو ڈائریا بھی ہوسکتا ہے جس کے باعث جسم سے نمکیات خارج ہوسکتے ہیں۔ ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے اور بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن میں کمی آسکتی ہے۔ڈاکٹر جنید کے مطابق ڈینگی کا اگر ابتدائی مراحل میں علاج نہ کیا جائے تو وہ مریض کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔
ڈینگی سے بچاؤ کے لیے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس وائرس سے بچاؤ کا کوئی وقتی حل نہیں ہے بلکہ یہ طویل مدتی جدوجہد ہو گی، جس میں حالیہ عرصے میں نئے تجربات کو بھی سامنے رکھا جاسکتا ہے مگر اس میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ڈبلیو ایچ او کا متعارف کروایا گیا طریقہ ہے۔دوسری جانب ڈاکٹر محمد افتخار اور رفیع الرحمان نر مچھر کو بانجھ بنانے کے تجربے سے متفق نہیں ہیں۔ان کے مطابق ہر تجربہ ہر ملک اور ماحول کے لیے موافقت نہیں رکھتا۔ ابھی تو بنگلہ دیش نے یہ تجربہ آزمائشی بنیادوں پر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں پر ماہرین نے ڈینگی کے زیادہ پھیلاؤ اور انسانی جانوں کو بچانے کے لیے اس تجربے کو کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ آگے چل کر کیا ہوتا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ابھی تک اس تجربے کو ڈبلیو ایچ او نے بنگلہ دیش کے علاوہ کسی اور ملک کے لیے تجویز بھی نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہاس حوالے سے جس طرح سے سری لنکا میں ملیریا سے نمٹا گیا ، ایسی مثال کو ضرور سامنے رکھا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک قصبے سے دوسرے قصبے، اور بیرونی ممالک سے آنے والوں کی سکینگ کا نظام متعارف کروایا تھا۔ اس سے ملیریا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی ہے۔اس طرح کے اقدامات سے پاکستان میں ڈینگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں ڈینگی کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ انسان ہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button