کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف عوامی لاوا کیوں پھٹا؟
بالآخر پاکستان کے ارب پتی طاقتور بلڈر ملک ریاض حسین کے ملکیتی بحریہ ٹاون کی چیرہ دستیوں اور قبضوں کے خلاف ابلنے والا عوامی لاوا 6 جون کے روز تب ایک دھماکے سے پھٹ گیا. جب متاثرہ سندھی قوم پرست مظاہرین نے بحریہ ٹاون کراچی پر حملہ کردیا اور تباہی مچا دی۔
یاد رہے کہ کراچی میں پچھلے کچھ مہینوں سے مسلسل ایسے واقعات ہو رہے تھے جن میں بحریہ ٹاؤن پر مختلف علاقوں میں غریب لوگوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے تھے۔ چنانچہ 6 جون کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کی کارروائیوں کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور اور کسان تنظیموں اور متاثرین نے ہزاروں افراد پر مبنی ایک احتجاج کیا جس کے دوران متعدد عمارتیں اور گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئیں۔کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی کے الزام میں 80 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا ہے، قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان میں ان کے کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ مظایرین کے حملوں کے بعد جائے وقوع اور آس پاس سے 80 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن پولیس نے اس الزام کو مسترد کیا کہ خواتین بھی گرفتار افراد میں شامل ہیں۔ پولیس افسر نے بتایا کہ پتھراؤ میں ’ایک ڈی ایس پی اور ایک ایس ایچ او بھی زخمی ہوئے ہیں، کراچی میں پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں سندھ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی لوگوں اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستان کے جھنڈے کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں۔مقدمات کے اندراج کے بعد جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما صنعان قریشی کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
دوسری جانب سندھ یونائیڈ پارٹی کے ترجمان مخدوم شمس کا کہنا ہے کہ ان کے سو سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 15 سے زائد خواتین کو گڈاپ تھانے پر رکھا گیا ہے۔ سندھ ایکشن کمیٹی کے رہنما روشن جونیجو نے بتایا کہ قوم پرستوں کے اتحاد میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گرفتاریوں اور تشدد کے خلاف 9 جولائی کو سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرہے کیے جائیں گے جبکہ سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقعے پر اسمبلی کا گھیراؤ ہوگا جس کی تاریخ کا اعلان جلد کردیا جائیگا۔
دوسری جانب بحریہ ٹاون کے خلاف جاری احتجاج نے بین الاقومی احتجاج کی صورت اختیار کرلی ہے، ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے برطانیہ میں لندن، اور امریکہ میں نیویارک اور ھوسٹن میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ اتوار کو بحریہ ٹاؤن کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم افراد نے مرکزی دروازے کے باہر اور اندر واقع تعمیرات کے علاوہ چند موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جبکہ پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کی۔ یہ ہنگامہ آرائی احتجاجی دھرنا سپر ہائی وے سے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے باہر منتقل کیے جانے کے بعد شروع ہوا۔ مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج سے قبل مظاہرین نے سپر ہائی وے پر دھرنا دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی تھی۔ بعدازاں سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی نے پولیس حکام سے بات کی اور انھیں کہا کہ ’مظاہرین کو گیٹ کے سامنے دھرنا دینے دیا جائے تو وہ سپر ہائی کھول دیں گے‘ جس کے بعد انھیں دھرنے کی اجازت دے دی گئی۔‘ لیکن مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کے دوران نامعلوم افراد بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے اور وہاں توڑ پھوڑ شروع کر دی جس کے بعد جلسہ گاہ سے اعلان کیا گیا کہ ’شر پسندوں کا تعلق ان سے نہیں ہے اور پولیس انھیں حراست میں لے۔ ‘
دوسری جانب توڑ پھوڑ کرنے والے ان افراد نے نہ صرف رکاوٹوں کو نذر آتش کیا بلکہ موقعے پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران بحریہ ٹاؤن کے اندر واقع کم از کم دو عمارتوں سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا۔اس ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کرنے والوں کا تعلق سندھ ایکشن کمیٹی سے نہیں ہے۔ وہ پرامن لوگ ہیں اور پرامن احتجاج میں یقین رکھتے ہیں‘۔انھوں نے کہا کہ ’اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے کچھ عناصر نے یہ اقدام کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ سندھ ایکشن کمیٹی نے ہی سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے سامنے اتوار کو آٹھ گھنٹے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا تھا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں اور علاقائی تنظیموں نے شرکت کی حامی بھری۔ اس احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ چوکیاں بھی قائم کیں جبکہ احتجاج میں شامل تنظیموں کا الزام ہے کہ بعض مقامات پر قافلوں کو روکا بھی گیا، جس کی صوبائی حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سکیورٹی کے انتظامات کیے تھے۔ لیکن سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت رکاوٹیں پیدا کرتی تو یہ قوم پرست دوست یہاں تک کیسے پہنچتے۔انھوں نے کہا کہ ’قوم پرست، جے یو آئی اور سول سوسائٹی کے لوگ پُرامن لوگ ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی شرپسند اس صورتحال کا فائدہ لے۔ اسی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا تھا۔اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن نے موقف دیا تھا کہ ’مقامی بااثر سیاسی افراد اور لینڈ مافیا مل کر‘ انھیں ’سیاسی و مالی مفادات کی خاطر‘ بلیک میل کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 6 جون کے دھرنے میں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، خالق جونیجو کی جئے سندھ محاذ سمیت عوامی ورکرز پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، سندھ مزاحمت تحریک، ہاری کمیٹی، انڈجنس رائٹس اور دیگر جماعتیں شامل تھیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے قیام سے لے کر یہ سب سے بڑا احتجاج تھا، جس میں سندھ بھر سے سیاسی کارکنان کے علاوہ ادیب، شاعر و دانشور بھی شریک تھے۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں ’بحریہ ٹاؤن انتظامیہ مقامی گوٹھوں اور آس پاس کی زمینوں پر قبضہ گیری بند کرے اور سپریم کورٹ نے اس کو جتنی زمین دی ہے اس پر اپنا منصوبہ محدود کرے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بحریہ کی باقی تمام کارروائی غیر قانونی و غیر آئینی ہے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان کی مدد گار ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ایک طرف سندھ کا سیاسی کارکن، ادیب اور دانشور ہیں جبکہ دوسری جانب ملک ریاض کا قبضہ مافیا ہے۔ لہازا پیپلز پارٹی کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
یاد رہے کہ مئی 2021 میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کے ہمراہ ملیر کے گبول گوٹھ سمیت دیگر آبادیوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی تھی جس پر مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس دوران فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیل پر وائرل ہوئیں۔ سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ایک پریس کانفرنس میں اس صورتحال پر سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کو تحقیقات کے لیے کہا ہے۔حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کیا گیا تھا۔
اس سارے معاملے پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے گذشتہ ماہ کہا گیا تھا کہ انھوں نے کوئی بھی غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کچھ بلیک میلرز یہ معاملات پیدا کر رہے ہیں‘ جبکہ ’بحریہ ٹاؤن نے اپنے قریب کے گوٹھوں میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘بحریہ ٹاؤن کے بیان مطابق انھوں نے ’سوشل میڈیا پر گمراہ ویڈیوز اور بے بنیاد الزامات کی مکمل تردید‘ کی تھی۔
اس معاملے پر صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مقامی منتخب اراکین بھی لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’کیوں چاہیں گے کہ لوگ بے گھر ہوں۔‘ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیے جانے والے احتجاج پر سوشل میڈیا پر صارفین گرما گرم بحث میں حصہ لے رہے ہیں۔ احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف سعد تمیمی کا کہنا تھا کہ ’جہاں اس وقت سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف زمینوں پر قبضے کے لیے مقامی افراد پر فائرنگ اور زبردستی زمین ہتھیانے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں وہیں ہمارے ’آزاد میڈیا‘ پر بھی سوالیہ نشان ہے، میں مختلف ٹی وی چینلز دیکھ رہا ہوں لیکن کوئی چینل اس مظاہرے کو نہیں دکھا رہا۔‘
صحافی و تجزیہ نگار مبشر زیدی نے بھی سندھ قوم پرست جماعتوں اور مقامی افراد کی جانب سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘ جبکہ جواد خان نامی صارف نے مشتعل مظاہرین کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن میں آگ لگی ہوئی ہے، بہت سی عمارات کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بھاری نفری بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر تعینات ہے۔ عوام محتاط رہے۔‘
صحافی و اینکر محمد مالک نے بھی بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی ایک ویڈیو پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کراچی میں آج کے بہت سے مناظر میں سے ایک، مشتعل مظاہرین کا پاگل پن۔‘ یاد رہے کہ سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے پر اس کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم بعد میں بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے درخواست کی کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث انھیں ادائیگی میں مہلت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ معشیت میں بہتری آ رہی ہے اور بحریہ ہاؤسنگ میں پلاٹوں اور مکانات کی پہلے سے بکنگ ہوچکی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اب جبکہ ملک ریاض کی چیرہ دستیوں کے خلاف ابلتا ہوا عوامی لاوہ پھٹ چکا ہے، انہیں آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہنا ہو گا۔