ایل او سی مارچ جاری، خطرہ بڑھ گیا

وزیراعظم عمران خان کے منع کرنے کے باوجود آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی طرف سے شروع کیا جانے والا مارچ لائن آف کنٹرول پار کرنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے اور اب گڑھی دوپٹہ سے چکوھٹی کی جانب رواں دواں ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی انتظامیہ مظاہرین کو روک پائے گی یا نہیں کیونکہ اگر مظاہرین نے ایل او سی پار کرنے کی کوشش کی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انہیں روکنے کے لیے فائرنگ کی جائے گی جس سے پاک بھارت سرحدی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
بھارت کی قید میں موجود حریت پسند کشمیری رہنما یٰسین ملک کی سربراہی میں قائم تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی قیادت میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) جانے والا ہزاروں افراد کا قافلہ 4 اکتوبر کی رات گڑھی دوپٹہ پہنچ گیا جہاں رات قیام کے بعد آج اتوار کے روز یہ قافلہ دوبارہ لائن آف کنٹرول کی طرف اپنا مارچ شروع کر رہا ہے۔ مظاہرین کو ایل او سی کی طرف جانے سے روکنے کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات کردیئے گئے ہیں جب کہ ضرورت پڑنے پر فوجی دستے بھی طلب کیے جاسکتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے لائن آف کنٹڑول (ایل او سی ) کی جانب سے پر امن آزادی مارچ کے آغاز کے وقت بھارت مخالف نعرے بازی بھی کی گئی تھی۔

مارچ میں شریک افراد نے 4 اکتوبر کو آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے ذریعے ایل او سی کی جانب سفر کا آغاز کیا اور جمعہ کی شب مظفر آباد میں گزارنے کے بعد دوبارہ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ آزادی مارچ کے شرکا مظفرآباد میں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز اپر اڈا پر جمع ہوئے جس کے بعد چکوٹھی سیکٹر کی جانب مارچ کا آغاز کیا۔
مارچ کے شرکا نے سابق چیئرمین جے کے ایل ایف امان اللہ خان اور موجودہ چیئرمین یٰسین ملک کی تصاویر پکڑی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی ‘ کشمیر بنے گا خود مختار‘ کی نعرے بازی بھی کی۔
علاوہ ازیں مارچ میں شریک افراد نے ایک بڑا بینر تھاما ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ اقوام متحدہ، کشمیر کو فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ کچھ شرکا کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر درج تھا کہ اقوام متحدہ کشمیریوں کو حق رائے دہی دلانے کے لیے جموں و کشمیر کو کنٹرول سنبھالے۔
دو روز قبل آزاد کشمیر کے وزار نے جے کے ایل ایف کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی اور مارچ کے شرکا سے ایل او سی کے قریب نہ جانے اور اسے پار نہ کرنے کی اپیل کو دہرایا تھا۔
جس پر جے کے ایل ایف کے رہنماؤں نے انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ایل او سی کی جانب سے سفر کے دوران پُرامن رہیں گے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان محمد رفیق ڈار نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ برائے پاکستان اور بھارت نے ان سے رابطہ کیا تھا اور ان کا موقف معلوم کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ اقوام متحدہ کے مبصرین کو پُرامن مارچ کے مقاصد سے آگاہ کرنے کے علاوہ ہم نے اقوام متحدہ کی امن فورسز کو جموں و کشمیر کا کنٹرول سنبھالنے اور اقوام متحدہ کی جانب سے ریفرنڈم کی فضا پیدا کرنے کا مطالبہ دہرایا ‘۔
محمد رفیق ڈار نے کہا کہ ’ اقوام متحدہ کو 21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی قرارداد نمبر 47 کا پیرا نمبر 2 بھی یاد دلایا جس میں ایل او سی پار کرنا ایک قانونی سرگرمی قرار دیا گیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ جے کے ایل ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اقوام متحدہ، پاکستان اور بھارت کو پرامن مارچ کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال نہ کرنے پر راضی کرے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ آزادی مارچ ایل اوسی کی جانب دوبارہ اپنا سفر شروع کرتا ہے تو کیا پاکستانی انتظامیہ اس کو روک پائے گی یا نہیں کیونکہ اگر مظاہرین نے ایل او سی پار کرنے کی کوشش کی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انہیں روکنے کے لیے فائرنگ کی جائے گی جس سے پاک بھارت سرحدی جنگ چھڑ جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!