کویت نے پاکستانیوں کے لیے ویزا کے اجرا کی پابندی ہٹا دی: ’ادھار مانگ کر کویت کا ویزا ملا تھا امید ہے اب قرضہ واپس کر سکوں گا‘

’قرض لینے والے گھر پر اور دکان پر آ کر قرض واپس لینے کا تقاضا کرتے ہیں جس کی وجہ سے میری عزت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن اب امید ہے کہ میں قرضہ واپس کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔‘
یہ الفاظ کویت میں 16 برس پلمبنگ کا کام کرنے والے ایک پاکستانی عبدالقیوم کے ہیں جو تقریباً ڈیڑھ سال سے اقامہ کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہیں۔
گذشتہ سال کے شروع میں وہ اپنی سالانہ چھٹیوں پر پاکستان آئے تھے لیکن اس کے بعد اقامے کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے کویت واپس نہیں جا سکے۔واضح رہے کہ کویتی حکومت نے گذشتہ دس سال سے پاکستانیوں کے لیے ہر قسم کے ویزے کے اجرا پر پابندی عائد کر رکھی تھی تاہم گذشتہ روز کویتی حکام نے یہ پابندی ہٹانے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
عبدالقیوم نے کہا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکے تاہم انھوں نے پائپ فٹنگ اور پلمنگ کا ہنر ضرور سیکھ لیا۔عبدالقیوم کے والد نے سنہ 2003 میں زمین بیچ کر اور کچھ رقم ادھار لے کر انھیں کویت کا ویزہ تین لاکھ روپے میں خرید کر دیا، جہاں پر وہ ایک نجی کفیل کے پاس پائپ فٹنگ اور پلمنگ کا کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگے۔عبدالقیوم کے مطابق وہ کویت میں محنت مزدوری کر کے ایک سے سوا لاکھ پاکستانی روپے کما لیتے تھے جس سے ان کا اور ان کے خاندان کا گزر بسر اچھے طریقے سے ہو رہا تھا۔کویت میں کام کرنے کا طریقہ کار کیا ہے اور عبدالقیوم کو مشکلات کیوں پیش آئیں؟
عبدالقیوم کے پانچ بچے ہیں اور والدین بھی ان کے ہمراہ رہتے ہیں اس لیے وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کویت جانے کے بعد سے ہر سال ایک مرتبہ پاکستان کا چکر لگاتے تھے۔
‘بعض اوقات اقامہ یعنی رہائشی پرمٹ دو سے تین سال کا مل جاتا اور مالی حالات کچھ بہتر ہوتے تو ایک سال میں دو مرتبہ بھی پاکستان آ جاتے تھے۔‘تاہم جب وہ گذشتہ برس اوائل میں پاکستان آئے تو ملک میں کورونا کی وبا پھیل چکی تھی اور دنیا بھر میں کورونا کے کیس سامنے آنے کے بعد کویتی حکومت نے اقامے کی آن لائن تجدید کی منظوری دی تھی۔
دراصل کویت میں کام کرنے کے لیے آپ جہاں کام کرنے جاتے ہیں وہاں سے ایک سپانسر لیٹر آتا ہے جس کی بنیاد پر ویزا لگایا جاتا۔ جو کمپنی یا شخص آپ کو سپانسر لیٹر بھیجتا ہے وہ کفیل کہلاتا ہے جسے اقامے یعنی کویت میں رہنے کے رہائشی پرمٹ میں تجدید کرنے کا حق ہوتا ہے۔عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ ویزہ حاصل کرنے کی ضرورت تو صرف ایک بار ہی پڑتی ہے جبکہ اس کے بعد اقامہ (رہائشی پرمٹ) کی تجدید کروانے کی ضرورت اس کی معیاد حتم ہونے کے بعد پڑتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے کفیل سے درخواست کی کہ ان کے اقامے کی تجدید کروا دیں تاکہ وہ جلد ازجلد کویت جا سکے۔تاہم کفیل سے بارہا اقامے کی تجدید کی درخواست کی لیکن ان کے کفیل نے ان کی درخواست پر غور نہیں کیا اور آن لائن اقامے کی تجدید کی کوئی درخواست نہیں دی۔
عبدالقیوم کے مطابق اقامے کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ویزہ بھی ختم ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ کویتی حکومت کی طرف سے پاکستانیوں کے لیے ویزے کے اجرا پر پابندی کی وجہ سے وہ ویزا حاصل نہ کر سکے۔