کپتان اور پیرنی ایک دوسرے کے فین کیسے بنے؟


جس طرح وزیراعظم عمران خان کو یقین ہے کہ انکی تیسری اہلیہ بشری بی بی کی بشارتوں اور برکتوں سے نہ صرف وہ اور انکی حکومت بلکہ پورا پاکستان فیض یاب ہو رہا ہے، اسی طرح خاتون اول کو بھی یقین ہے کہ پاکستانی قوم کو عمران جیسا وزیراعظم ملنا انکی خوش قسمتی اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے۔
چشم نظر تاب لا سکے تو ذرا تصور کریں کہ اسلام آباد کے جنت نظیر علاقے بنی گالہ کی ایک سرسبز پہاڑی پر ایچی سن کالج اور آکسفورڈ کا پڑھا ہوا ایک سابقہ پلے بوائے اور اس کے پہلو میں پاک پتن کی عبادت گزار پنکی پیرنی ایک ساتھ کھڑے ہو کر درود شریف پڑھ رہے ہیں اور ساتھ میں بارش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ کیا اسلام کے ہم نام اسلام آباد شہر نے روحانیت اور رومانویت سے بھرا ہوا ایسا منظر پہلے کبھی دیکھا ہے؟ یہ قدرت اللہ شہاب کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہ بانو قدسیہ کے فلسفے کی عملی تفسیر ہے۔ یہ ایک ایسی حسین تصویر ہے جو مولانا طارق جمیل کے سارے بیانات سے زیادہ پرتاثیر ہے۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان کو بشریٰ بی بی کے پاس روحانیت کھینچ کر لے گئی یا وہ اقتدار کی خواہش میں بھٹکتے ہوئے ”پنکی پیرنی“ کے پاکپتن والے ڈیرے پر جا پہنچے۔ دیکھا جائے تو بات صرف اتنی ہے کہ بشریٰ بی بی کے مقدر میں خاتون اول کے مرتبے پر فائز ہونا لکھا تھا، سو وہ ہو کر رہیں۔ اب یہ تو وہی بتا سکتی ہیں کہ اس مرتبے پر فائز ہونے کے لئے انھوں نے کتنے چِلے کاٹے اور ان کے مؤکلوں نے کتنی مشقت کی؟ تاہم عمران کے قریبی دوست جانتے ہیں کہ انھوں نے بشریٰ بی بی سے شادی کا فیصلہ اسی وقت کر لیا تھا، جب انھوں نے ان کے گھر میں بشریٰ کی پرانی تصاویر دیکھیں جن میں وہ حجاب کے بغیر تھیں۔ دوسری جانب خان صاحب ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ شادی سے پہلے وہ بشریٰ بی بی سے گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے لیکن انھوں نے کبھی ان کا چہرہ نہیں دیکھا کیونکہ وہ پردے میں ہوتی تھیں، انکا اصرار ہے کہ انھوں نے بشریٰ بی بی کو شادی کے بعد ہی دیکھا تھا۔ بہرحال یہ بھی ایک سچ ہے کہ خان نے دو دہائیاں قبل ہی معرفت کی اس سیڑھی پر قدم رکھ دیئے تھے جو آخر کار انھیں بشریٰ بی بی کے در تک لے گئی! مگر اس سے بھی بہت پہلے یہ نوے کی دہائی کا ذکر ہے جب میانوالی کے عمران خان نیازی کا شہرہ پوری دنیا میں تھا۔ وہ ایک کامیاب کرکٹر ہی نہیں، فارن کوالیفائیڈ بھی تھے۔ انھوں نے نہ صرف ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم کینسر ریسرچ ہسپتال بنایا بلکہ کتابیں بھی لکھیں۔ اور تو اور 20 سال کی طویل سیاسی جدوجہد انھیں اقتدار کے ایوانوں تک بھی لے گئی، جہاں اگست 2018 میں انھوں نے 22ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ وہ الیکٹڈ ہیں، سلیکٹڈ ہیں یا یہ سب بشریٰ بی بی کی کرامات ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ایک زمانے میں عمران کی مردانہ وجاہت نے ایشیائی خواتین تو ایک طرف یورپی خواتین کو بھی اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ عموماً ان خواتین کا تعلق اپر کلاس یا فن اور آرٹ کی دنیا سے ہوتا تھا۔ پرمیشور گوڈریج سے زینت امان تک اور سیتا وائیٹ سے لِز ہورلے تک، ہر طرف ان کی دوستیوں کا چرچا تھا۔ بھارت کی معروف گوڈریج فیملی کو کون نہیں جانتا، پرمیشور کا تعلق اسی فیملی سے ہے اور یہ خان صاحب کی واحد خاتون دوست تھیں جنھوں نے کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ میں خان صاحب کی بہت مدد کی۔ ان دنوں لاہور میں منعقدہ ایک شو میں یہ آدھا بولی ووڈ کھینچ لائی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ بولی ووڈ کی حسیناؤں کے ساتھ خان صاحب کی دوستی کے پیچھے بھی اکثر پرمیشور ہی پائی جاتی تھیں مگر شادی کے لئے وہ کسی سے سنجیدہ نہیں ہوئے حتیٰ کی سیتا وائیٹ سے بھی نہیں اور شادی کے لئے جب ہاں کی تو قرعہ فال جمائما گولڈ سمتھ کے نام نکلا۔
جمائما سے خان صاحب کی ملاقات ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمائما اور بشریٰ کا Year of Birth ایک ہی ہے، دونوں 1974 میں پیدا ہوئیں اور خان صاحب سے 22 سال چھوٹی ہیں البتہ ان کی دوسری اہلیہ ریحام خان ان سے 23 سال چھوٹی تھیں۔ جمائما سے خان صاحب کے دو بیٹے ہیں، بدقسمتی سے یہ شادی چل نہیں سکی اور دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ریحام خان سے خان صاحب کی شادی کو حادثاتی کہا جا سکتا ہے، یہ شادی پائیدار ہو سکتی تھی اگر ریحام، خان صاحب کو سپیس دیتیں اور ہر ان کے کام میں دخل اندازی نہ کرتیں۔ لیکن ریحام کے اس شکوے میں بھی دم ہے کہ ان کی علیحدگی میں ”پنکی پیرنی“ کا ہاتھ ہے. تاہم جو بھی ہوا، اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ یہ سچ ہے کہ ریحام کی شادی سے پہلے، 2015 میں بشریٰ اور خان صاحب کی ملاقات ہو چکی تھی۔ بقول خان صاحب بشریٰ نجومی نہیں ہیں لیکن معرفت کے جس درجے پر وہ فائز ہیں، وہ میں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تصوف کی طرف مائل ہو چکا تھا۔ مین نے اقبالؒ، ابنِ عربیؒ اور مولانا رومیؒ کو پڑھا ہے۔ شاید روحانیت کی یہی کشش انھیں بابا فرید شکر گنجؒ کے مزار پر لے گئی۔ وہ اکثر اچانک رات گئے پاکپتن جاتے، اور گھنٹوں وہاں گزارنے کے بعد صبح واپس آ جاتے، وہیں ان کی ملاقات بشریٰ بی بی سے کروائی گئی جو اپنے علاقے میں ”پنکی پیرنی“ کے نام سے شہرت رکھتی تھیں۔ خان صاحب دو ملاقاتوں میں ہی ان کی روحانیت کے اسیر ہو گئے۔ اتفاق سے انہی دنوں این اے 154 لودھراں میں ضمنی الیکشن ہوئے، خان صاحب نے بشریٰ بی بی سے رجوع کیا اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین پہلی مرتبہ کامیاب ہو گئے۔ اب تو خان صاحب صحیح معنوں میں بشریٰ بی بی کے گرویدہ ہو گئے۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے بشریٰ سے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ میں وزیر اعظم بنوں گا یا نہیں لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر ایک طرف خان صاحب کو یقین تھا کہ ”پنکی پیرنی“ کا آستانہ ہی دراصل وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہونے کا پروانہ ہے تو دوسری طرف ”پنکی پیرنی“ کو بھی ان کے مؤکلوں نے بتا دیا تھا کہ خان صاحب کی سیٹ تو پکی ہے، باقی خاتون اول کے رتبے پر کون براجمان ہو گی؟ اس کے لئے بشریٰ بی بی کے دل میں جو پہلا خیال آیا، غالباً وہ یہی تھا کہ خان صاحب مانیکا خاندان ہی کی کسی خاتون سے شادی کر لیں۔۔
کہتے ہیں کہ بشری بی بی نے پہلے خان صاحب کو اپنی بہن سے نکاح کے لئے قائل کرنا چاہا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ خان صاحب تو دل و جان سے بشریٰ بی بی کے اسیر ہو چکے تھے، بشریٰ بھی جان چکی تھیں کہ خان صاحب ان کے علاوہ اس خاندان کی کسی خاتون سے نکاح نہیں کریں گے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ بشریٰ بی بی نہ صرف کسٹمز کے اعلیٰ عہدے دار خاور مانیکا کی اہلیہ تھیں بلکہ 5 جوان بچوں کی ماں بھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ روحانی عمل سے اس نتیجے پر پہنچیں کہ اب پاکستان کی بقا صرف عمران خان کے اقتدار میں ہے اور وہ تب تک وزیراعظم نہیں بن سکتے جب تک بشری خود انکے عقد میں نہ آ جائے۔ چنانچہ انھوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنے شوہر خاور مانیکا کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا۔ تاہم خاور مانیکا بخوشی راضی ہو گے۔ ظاہر ہے بات صرف اتنی نہیں تھی کہ ان کی اہلیہ ایک سیاست دان کے نکاح میں جا رہی تھیں۔ سیاست تو خود مانیکا خاندان کے گھر کی باندی تھی، اہم بات یہ تھی کہ بشری مستقبل کی خاتون اول بننے جا رہی تھیں اور یہ سودا مہنگا نہیں تھا۔۔ یوں 2017 میں دونوں کی 29 سالہ رفاقت ختم ہوئی اور 2018 میں الیکشن سے چند ماہ پہلے خان صاحب نے اپنی چہیتی پیرنی بشریٰ بی بی سے نکاح کر لیا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد خان صاحب ملک میں تبدیلی لائے یا نہیں لیکن شادی کے بعد ان کی زندگی میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ انگوٹھی پہنتے ہیں، ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں اور اپنی تقاریر میں جا بجا قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں۔ بشریٰ بی بی بھی اپنی موجودہ زندگی سے بے حد مطمئن ہیں اور برملا کہتی ہیں کہ میں نے خان صاحب کو رب سے اور انھوں مجھے مخلوق سے عشق کرنا سکھایا ہے۔ تاہم ظلم یہ ہوا کہ عمران خان تو وزیر اعظم بن گئے اور بشریٰ بی بی خاتون اول، لیکن پچھلے تین برس میں غریب عوام کا کچھ نہیں بن سکا۔

Back to top button