کپتان اور چوہدریوں میں تھوک کر چاٹنے کا مقابلہ


ماضی میں چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دینے والے عمران خان نے بالآخر تین سال کہ ناں ناں کے بعد ان کے بیٹے مونس الہی کو وفاقی وزیر بنا کر ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک اصول اور نظریہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور ان کا واحد مطمع نظر وزارت عظمی کو بچانا اور اقتدار سے چمٹ کر رہنا ہے۔ یاد رہے کہ چوہدری پرویز الہی پچھلے تین برس سے یہ دعوی کر رہے تھے کہ ان کے عمران سے اختلاف کی وجہ مونس الہی کو وفاقی وزیر بنانے سے انکار ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی مونس عمران کابینہ میں کبھی وزیر بنے گا۔ تاہم ب جبکہ مونس الہی عمران کی کابینہ میں وزیر بن چکے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف عمران خان نے ہی نہیں بلکہ گجرات کے چوہدریوں نے بھی تھوک کر چاٹا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کے لئے بھی اصول اور نظریے سے زیادہ اقتدار میں رہنا اہم ہے۔

سینئر صحافی وسیم عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کے صاحبزادے مونس الہی کی 19 جولائی کو تقریبا تین سال بعد پی ٹی آئی کی حکومت میں بطور وفاقی وزیر شمولیت سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ چوہدری برادران انتخابی سیاست میں نسبتا کم طاقت کے باجود پاکستان اور خصوصا پنجاب میں ایک حقیقت ہیں۔ اس تعیناتی سے ایک بار پھر یہ سوال گردش کرنا شروع ہو گیا ہے کہ گجرات کے چوہدریوں میں خدا جانے ایسا کیا جادو ہے کہ ان کے بدترین ناقد بھی آخر کار رام ہو کر نا صرف انہیں گلے لگاتے ہیں بلکہ سب سے اہم عہدوں سے نوازا نے پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان چند سال قبل جب اپوزیشن میں تھےتو ایک جلسے میں انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو ’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘ قرار دیا تھا۔ اس وقت شاید انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہو کہ جلد ایک وقت آئے گا کہ وہ پرویز الہی کی جماعت کے ساتھ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کریں گے پھر جیتنے کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی میں دوسرا بڑا عہدہ یعنی ’سپیکر صوبائی اسمبلی‘ بھی سونپیں گے۔ ناصرف یہ بلکہ یہ بھی ہوا کہ عمران خان نے پرویز الہی کی جماعت کو پنجاب اور مرکز میں ’حصہ بقدر جثہ‘ سے بھی بڑھ کر وزارتوں سے بھی نوازا۔ اور اب اسی ڈاکو کے بیٹے کو عمران خان نے اپنی کابینہ میں وفاقی وزیر بھی بنا دیا۔

وسیم عباسی کے مطابق عمران خان چوہدریوں کے بارے میں رائے بدلنے پر مجبور ہونے والے پہلے سیاستدان نہیں۔ اس سے قبل پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدان سمجھے جانے والے آصف زرداری نے بھی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کی جماعت مسلم لیگ ق کو اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں ملوث کرتے ہوئے ’قاتل لیگ‘ قرار دیا تھا۔ تاہم چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ چند ہی سال بعد جون 2012 میں پرویز الہی کو نائب وزیراعظم بنا دیا گیا اور ان کی جماعت کو اہم وزارتوں سے بھی نوازا گیا۔

یاد رہے کہ بھٹو خاندان کے ازلی مخالف اور شریفوں کو سخت ناپسند کرنے والے چوہدری شجاعت اور ان کے کزن چوہدری پرویز الہی کا خاندان کئی عشروں سے پنجاب کی سیاست میں اثر رسوخ کا حامل ہے اور انہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے۔ نواز شریف کے دونوں ادوار میں چوہدری بردران وزارت داخلہ سمیت اہم عہدوں پر رہے تاہم پرویز الہی کی پنجاب کی وزارت اعلی کی خواہش نواز شریف نے پوری نہ ہونے دی جس کے باعث شریف اور چوہدری خاندان میں سرد جنگ جاری رہی جو بلآخر نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے اختتام کے بعد چوہدریوں کی اپنی مسلم لیگ ق کے قیام پر منتج ہوئی جسے بعد میں مشرف نے اقتدار سے نواز دیا۔

چوہدری برادران کو سب سے زیادہ عروج سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں ملا جب قسمت کی دیوی ان پر اس قدر مہربان ہوئی کہ نیب کی تحقیقات میں جیل جاتے جاتے چوہدری بردران اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔ یہ چوہدری برادران کی خوش قسمتی ہی تو تھی کہ مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز چوہدری برادران کے بھی قریبی دوست تھے اس لیے دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے گئے اور چوہدری بردران 2002 کے انتخابات کے بعد ’کنگ میکر‘ بن کر ابھرے اور بلوچستان سے پارٹی رہنما ظفر اللہ جمالی کو انہوں نے ہی وزیراعظم بنوایا۔

2002 میں ہی چوہدری پرویز الہی بالآخر وزیراعلی پنجاب بنے اور دو ماہ کے لیے تو چوہدری شجاعت بھی وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے۔ پھر مشرف کے وردی اتارنے اور نواز شریف کی 10 سالہ جلاوطنی سے واپسی کے بعد چوہدریوں کی سیاسی طاقت کم ہو گئی مگر وہ غیر متعلق کبھی نہ ہوئے بلکہ 2008 کے انتخابات میں شہباز شریف کے ہاتھوں وزارت اعلی کھو دینے کے صرف چار سال بعد پرویزالہی پھر نائب وزیراعظم بن گئے۔ صرف نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں اقتدار کا ہما ان سے ناراض رہا تاہم پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک بار پھر ان کا اثر رسوخ بحال ہو گیا. تجزیہ۔کاروں کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران اقتدار کی سیاست کرتے ہیں اور وہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے کرتے ہیں۔ وہ روایتی چوہدری ہیں اور جیسا گاؤں میں ہوتا ہے چوہدری اور تھانیدار کا بڑا ساتھ ہوتا ہے۔

سینئر صحافی وسیم عباسی کے مطابق اگر چوہدری برادران فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہ ہوتے تو کبھی عمران خان سے نہ مل سکتے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے نے حال ہی میں چند مخصوص صحافیوں سے بات کرتے ہوئے چوہدری برادرن کی ’بلیک میلنگ‘ کا قدرے ناراضگی سے ذکر بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ ان سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران مسلم لیگ ق احتجاجا حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی میٹنگز سے غائب رہی تھی تاکہ عمران خان پر دباو ڈالا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مونس الہی کو وزارت ملنے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں جماعتوں میں کچھاؤ میں کمی آئے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چوہدری برادران کی سیاست کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں وہ رکھ رکھاؤ والے لوگ ہیں اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنا جانتے ہیں۔ کئی عشروں سے ان کا ڈیرہ چلتا ہے۔
اسلام آباد میں بھی چوہدری بردران کی ڈیرہ داری کا چرچا رہتا ہے اور مشہور ہے کہ جب 2002 کے انتخابات کے بعد ان کے گھر سینکڑوں ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں کے اجلاس ہوتے تھے تب بھی معززین کے ڈرائیورز تک کو ایف ایٹ کی گلیوں میں کھانا پہنچایا جاتا تھا۔اس ڈیرہ داری کی وجہ سے ان کے تعلقات دیرپا رہتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست پر عشروں سے نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور اخبار ڈان کےسابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر ضیا الدین کہتے ہیں کہ چوہدری برادران کی پنجاب میں نیٹ ورکنگ تمام دیگر سیاستدانوں سے مضبوط ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نیٹ ورکنگ کا مطلب ووٹ بینک نہیں بلکہ طاقت ور اور بااثر لوگوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ وہ نیٹ ورکنگ سے انتخابات جیت جائیں تاہم جو بھی حکومت میں آتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ چوہدریوں کے بغیر نہیں چل سکتا اس لیے ان سے ہاتھ ملا لیتا ہے۔ ضیاالدین کے مطابق چوہدری خاندان کی نیٹ ورکنگ اسٹیبلشمینٹ میں زیادہ ہے اور اسی لیے وہ کسی بھی جماعت کی حکومت میں اقتدار سے باہر نظر نہیں آتے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا جا کہ تحریک انصاف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی چودھری برادران کسی نہ کسی صورت اقتدار کا حصہ بنے رہیں گے۔

Back to top button