کپتان حکومت دوبارہ جسٹس فائز کے خلاف میدان میں آگئی


پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت سمجھے جانے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازشوں میں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود کپتان حکومت ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف میدان میں آگئی ہے۔ وفاقی حکومت نے فائز عیسیٰ کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے حکومتی درخواستیں واپس کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔
یاد رہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں نظر ثانی کی نو حکومتی درخواستیں یا (کیوریٹیو ریویو پٹیشنز) ’نازیبا زبان‘ کے استعمال اور تکنیکی خامیوں کے باعث واپس کردی تھیں۔
اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی درخواست پر دیے گئے فیصلے کے خلاف مزید نظر ثانی درخواستیں دائر کرنے کے حکومتی عمل کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ لیکن وفاق نے کاغذی کارروائی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے رجسٹرار کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت مانگی تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ نے مہلت کی درخواست اس شرط پر منظور کی تھی کہ حکومت نظر ثانی درخواست کی سماعت کرنے والے دس ججوں میں ہر ایک کے لیے درخواست کی نو، نو کاپیاں یعنی مجموعی طور پر 90 کاپیاں پیش کرے گی۔
سپریم کورٹ کے 1980 میں بنائے گئے قواعد کے مطابق رجسٹرار کے دفتر کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے کسی بھی اپیل کا فیصلہ ان کے چیمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے نامزد کردہ جج کرتا ہے، جو اپیل کو منظور کرنے یا تین رکنی بینچ کو بھیجنے کا مجاز ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کے دفتر نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نظرثانی کی درخواست کو واپس کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا تھا کہ وفاق کی پانچ درخواستوں کے سیٹ میں 1980 کے قواعد و ضوابط کی تشریح غلط تھی۔
رجسٹرار نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایکنہی کیس میں دوسری نظرثانی کی درخواست کو سپریم کورٹ کے قواعد کے آرڈر 36 رول نمبر نو کے تحت نہیں سنا جا سکتا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ نظر ثانی کی اپیل پر فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کی جا سکتی اور کوئی درخواست بھی رجسٹرار قبول نہیں کرے گا۔
رجسٹرار نے مزید لکھا کہ درخواستوں کے پہلے صفحے پر ’ازخود نوٹس‘ درج تھا جبکہ اندر کے صفحات پر درخواستوں کو ’کیوریٹیو ریویو پٹیشنز‘ قرار دیا گیا تھا، جبکہ درخواست دہندگان کی جانب سے وکیلوں کے نام مختار نامے بھی موجود نہیں تھے اور درخواستوں میں پانچ مقامات پر ’نازیبا الفاظ‘ کا استعمال کیا گیا تھا۔ رجسٹرار کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزار نے جسٹس عیسیٰ سمیت مدعا علیہان کو مناسب نوٹس بھی جاری نہیں کیے تھے۔ اسی لیے درخواستیں منظور نہیں کی جا سکتیں۔
یاد رہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے 19 جون 2020 کو اکثریتی فیصلے کے ذریعے صدارتی ریفرنس تو خارج کر دیا تھا، تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کی تین غیر ملکی جائیدادوں پر تحقیقات اور بعد میں ٹیکس عائد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے اپریل 2021 میں منظور کرتے ہوئے اپنے ہی 19 جون 2020 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ اپریل کے فیصلے میں عدالت نے 19 جون کے فیصلے کے نتیجے میں ہونے والی تمام کارروائی، اقدامات، احکامات، معلومات اور اطلاعات اور مختصر آرڈر کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ فیصلے میں واضح کیا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کوئی بھی فورم کسی بھی رپورٹ یا آرڈر کو زیر غور لائے گا اور نہ ہی کوئی کارروائی کر سکے گا۔
مختصر حکم کے نتیجے میں 19 جون کے مختصر آرڈر کے آٹھ پیراگرافس اور اس کے بعد 23 اکتوبر کے تفصیلی فیصلے کو واپس لیا گیا تھا۔ ان پیراگرافوں کو نظرثانی درخواستوں کے ذریعے درخواست گزاروں نے چیلنج کیا تھا۔
حکومت نے نظر ثانی کی درخواستوں میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ جوڈیشل کونسل کو پیش کی گئی ایف بی آر کی رپورٹ کی حد تک فیصلے پر نظرثانی کی جائے تاکہ کونسل جسٹس عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرسکے۔ تاہم حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تازہ کاروائی بھی ناکامی کا شکار ہو گی۔

Back to top button