کپتان حکومت کے میڈیا مخالف قانون کا پوسٹ مارٹم
پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی بنائی ہوئی کپتان حکومت اس وقت مین سٹریم میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کر چکے ہیں، ایڈیٹوریل کنٹرول سے لےکر مالکان اورصحافیوں تک سب پر شکنجہ تنگ کر دیا گیا ہے اور رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے اب سوسل میڈیا کو قابو کرنے کے لیے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کالا قانون نافذ کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے. مین سٹریم میڈیا پر سخت ترین پابندیوں کے آج کے دور میں سوشل میڈیا واحد میڈیم ہے جو عوام تک سچ پہنچا رہاہے لیکن اب سوشل میڈیا کی آواز کو دبانے بھی کیلئے میڈیا ڈویلپمنٹ پارٹی کا مجوزہ کالا قانون لایاجا رہاہے. ناقدین کا کہنا یے کہ یہ قانون عسکری ڈاکٹرائن کے اس دس سالہ پلان کا حصہ ہےجس کا مقصد اگلے الیکشن کو بھی انجینئر کرنا اور ایک مرتبہ پھر اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا ہے۔
اس کالےقانون کے تحت اب سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم Twitter, Facebook, YouTube وغیرہ پر سیاسی بات یا سیاسی content چلانے کی صورت فرد کو بھی میڈیا ہی تصور کیا جائے گا، اور ایسا کرنے کیلئے اسے حکومت سے لائسنس لینا ہو گا جس کی تجدید ہر سال کروانا ہو گی. یعنی اب پاکستانیوں کیلئے سوشل میڈیا پر سیاسی بات کرنا ناممکن ہوجائےگا۔اس کالے قانون کے خلاف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس، سیاسی جماعتوں، میڈیا پرسنز، اور وی لاگرز سراپا احتجاج ہیں۔
ناقدین کے مطابق پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس میں دسیوں اداروں اور ایجنسیوں کو یکجا کرکے تمام طرح کے میڈیا کو ہر ’’سہولت‘‘ فراہم کرنے کی آڑ میں ایک بڑے ہی طاقتور اور جابرانہ ادارے کو ہر طرح کا اختیار تفویض کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کی تسلی کے لیے آرڈیننس کے ابتدائیہ میں شاعرانہ فصاحت سے کام لے کر طفلانہ تسلی دینے کے بعد آرڈیننس کے متن میں تمام طرح طرح کی بندشوں، سزائوں ، کلی اختیارات اور ذہنی شکنجے کسنے کے مکمل ترین انتظامات کردئیے گئے ہیں۔ اس میڈیا اتھارٹی کا دائرہ ہمہ گیر اور ہمہ طرف ہے۔ کیا اخبارات، کیا ٹیلی وژن، کیا ریڈیو، کیا سوشل میڈیا، کیا عام شہری، آن لائن صحافت اور اظہار کی کوئی بھی صورت ‘دم توڑ جائے گی۔
معلوم ہوا ہے کہ اس کالے قانون کے پیچھے دراصل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کارفرما ہے جس نے کپتان حکومت کے ذریعے اسے نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ نئے مجوزہ قانون میں میڈیا اور شہری میڈیا سے متعلق تمام تر ادارے ایک چھت تلے جمع کردئیے گئے ہیں اور ان کے تمام اختیارات اب ایک آہنی ہاتھ میں ہوں گے۔ اسی طرح تمام مروجہ قوانین اور ضوابط کی جگہ ایک ہی آرڈیننس کے آہنی ہاتھ میں ہوںگے۔ مختلف طرح کے میڈیاز کو کنٹرول کرنے کے لیے اس ہشت پا کے مختلف بازو ہوں گے۔
اس کی بنیاد اس گمراہ کن مفروضے پہ رکھی گئی ہے کہ میڈیا ریاست کا ایک ستون ہے اور میڈیا کے لیے اس کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے بعد آزادی اظہار کے پلے کچھ نہیں بچتا۔ اس اتھارٹی کے قیام سے‘ جو حکومتی پالیسیوں اور احکامات کی پابند ہوگی کے ہاتھوں آزاد میڈیا کی تو گویا تدفین ہوجائے گی۔
تمام تر میڈیا کے لیے اس واحد میڈیا اتھارٹی کا چیئرمین گریڈ 21/22 کا افسر وفاقی حکومت مقرر کرے گی جبکہ دیگر 5 اراکین بطور سرکاری اہلکار اس کے اراکین ہوں گے۔ ان میں ایف بی آر، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اور وزارت داخلہ کے سیکرٹری شامل ہوں گے اور باقی چھ اراکین بھی وزیراعظم کے نامزد کردہ ہوں گے۔
گویا یہ اتھارٹی وزیراعظم کی حکومت کی نامزد کردہ ہوگی جس پر پبلک سرونٹس ہونے کے ضوابط لاگو ہوں گے۔ اس اتھارٹی کے اراکین الیکشن کمیشن کے اراکین کی طرح پارلیمنٹ میں دو طرفہ اتفاق رائے سے نامزد نہیں ہوں گے تاکہ یہ انتظامیہ سے آزاد نہ رہ سکیں۔
مجوزہ کالے قانون کے تحت یہ اتھارٹی اخبارات، ٹیلی وژن، ریڈیو، آن لائن میڈیا، سوشل میڈیا اور بلاگرز کو لائسنس اور NOC دینے کی مجاز ہوگی جس کی کہ پہلے سکیورٹی کلیئرنس ہوگی جو قومی سلامتی کے ادارے کریں گے۔ یاد رہے کہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں سوشل میڈیا پر اس طرح کی بندشوں اور قدغن عائد نہیں جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کالے قانون کے پیچھے ملٹری مائنڈ سیٹ کر فرما ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس قانون کے تحت ہر برس لائسنسز کی تجدید ہوگی اور پندرہ برس کے بعد انکا از سر نو اجرا ہوگا۔ یہی حکومتی اتھارٹی لائسنس نیلام کرے گی، فیس لے گی، جرمانے کرے گی، سزائیں دے گی، سرکولیشن کا تعین کرے گی، ریٹنگ کا جائزہ پیش کرے گی، مواد کو چھانے گی اور رد کرے گی اور شہریوں کے گھروں میں گھس کر انکے کمپیوٹرز اور کمیونیکیشن کے آلات برآمد کرے گی اور جانے کیا کچھ۔ اب اتنا سارا کام ایک چیئرمین تو کرنے سے رہا۔ لہازا میڈیا ڈویلپمینٹ اتھارٹی، ایک کمیشن نامزد کرے گی، مختلف میڈیاز کے لیے ونگز بنائے گی، شکایات کونسلز تشکیل دے گی اور خود ہی اپنا عدالتی نظام یعنی میڈیا ٹربیونلز بنائے گی جس کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹس کو اپیل سننے کا حق نہ ہوگا۔
مختلف طرح کی خلاف ورزیوں پر اس کے ٹربیونلز تین سال تک سزائیں اور اڑھائی کروڑ تک جرمانہ بھی کرسکیں گے۔ ادارے کے کرتا دھرتا بیوروکریٹس ہوں گے جن کی نکیل وزیراعظم اور ان کے وزیر اطلاعات کے ہاتھ میں ہوگی۔
مختصر الفاظ میں اس مجوزہ اتھارٹی کا تصور ایک طرح سے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے مرکزی آمرانہ اختیارات سے مستعار لیا گیا دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرح کا لیوریج اور آلہ ء کنٹرول اس اتھارٹی کو دے دیاگیا ہے۔ لائسنس ہو یا سرکولیشن، ریٹنگ ہو یا مواد، پالیسی ہو یا ضابطہ اخلاق، اشتہارات ہوں یا مراعات سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہوگا۔
معاملہ فقط مصلوب شدہ روایتی اور غیرروایتی میڈیا کا نہیں، شہریوں کے حقِ اظہار اور حقِ جانکاری کا ہے۔ اب کوئی شہری اپنا بلاگ، وی لاگ یا سوشل میڈیا پہ اپنا کھاتہ کھولے گا تو اسے بھی لائسنس درکار ہوگا او راس کی سکیورٹی کلیئرنس بھی۔
یعنی اس قانون کے ذریعے فوجی اسٹیبلشمینٹ اہنے شہریوں سے حق خود ارادیت کے بعد اب اظہار کا حق بھی چھیننے کی تیاری کر رہی ہے۔
چنانچہ میڈیا کی تمام تنظیموں نے اسے متفقہ طور پر مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور بار ایسوسی ایشنز، پی ایف یو جے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے آزادی اظہار پہ ایک قومی کنونشن اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی اسے سختی سے رد کردیا ہے لیکن حکومت اور مقتدرہ اسے ایک آرڈیننس کے ذریعہ لاگو کرنے پہ تلی بیٹھی ہے۔ خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو موجودہ ہائبرڈ نظام کے تحت پاکستانی میڈیا مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔