کپتان کا سپانسر ابراج گروپ احتساب سے دور

وزیراعظم عمران خان مسلسل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کرپشن کے خاتمے اور بے لاگ احتساب کے نام پر ووٹ ملے ہیں لیکن کڑوا سچ تو یہ ہے کہ کروڑوں ڈالر رشوت کیس میں ملوث ابراج گروپ کا مالک عارف نقوی کپتان کا سپانسر ہے اور اسی لیے مختلف کرپشن کیسوں میں نام آنے کے باوجود اس گروپ کے خلاف آج دن تک کسی قسم کی کوئی تحقیقات ہی شروع ہی نہیں کی گئیں۔ لہذا ابراج گروپ کا معاملہ تحریک انصاف کے لیے ٹیسٹ کیس حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کے وزیراعظم عمران خان سے قریبی تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کچھ ماہ پہلے عارف نقوی کو لندن ائیرپورٹ پر گرفتار کیا گیا تو انہوں نے رابطے کے لیے جن شخصیات کے نمبر دیے، ان میں ایک عمران خان کا بھی تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کپتان سے کس قدر گہرا اور قریبی تعلق ہے۔
لہذا یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین پر بے رحمانہ احتساب کی چھری چلوانے والے کپتان نے اپنی سپانسر کمپنی کے مالک عارف نقوی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیوں نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے مخالفین کہتے ہیں کہ اگر وزیراعظم نے ابراج گروپ پر ہاتھ ڈالا تو ان کے اپنے کئی راز کھل جائیں گے۔
عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی اپنی کتاب میں دعویٰ کیا تھا کہ عارف نقوی نے 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی مالی معاونت کی تھی۔ خیال رہے کہ عارف نقوی کی جانب سے تحریک انصاف کو ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی مالی معاونت پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے نیب کو تحقیقات کے لیے کہا تھا اور نیب نے یہ انکوائری 2016 کو ختم کر دی تھی اور باقاعدہ پریس ریلیز میں اس کا اعلان بھی کیا گیا۔
واضح رہے کہ ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی پر متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی عدالتوں میں کیسز چل رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ابراج گروپ کے کیس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے قریبی دوست نوید ملک پر دو کروڑ ڈالر کی رشوت کی پیشکش کا الزام ہے مگر اس الزام پر سوا سال گزرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں امریکہ کے مشہور اخبار وال سٹریٹ جرنل میں انکشاف ہوا کہ مشرق وسطی کے سرمایہ کار گروپ ابراج کے سربراہ عارف نقوی نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو 2 کروڑ ڈالر رشوت کی پیشکش کی تھی۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ ڈالر رشوت کی آفر میاں نواز شریف کے قریبی دوست اور کراچی کے مشہور تاجر نوید ملک کے ذریعے کی گئی۔ دراصل عارف نقوی کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کے ہاتھ بیچنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہیں برسراقتدار مسلم لیگ ن کی قیادت کی حمایت درکار تھی۔ نون لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت پاکستان میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور کے مطابق ملک سے لوٹی گئی رقم واپس لانے اور میگا پراجیکٹس سے متعلق معاہدوں میں رشوت ستانی کے خلاف خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود تحریک انصاف نے ابراج گروپ پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ حالانکہ وزیراعظم عمران خان اس معاملے سے سے پوری طرح باخبر ہیں، جس کی گواہی وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر اپنے ٹی وی انٹرویو میں دے چکے ہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو تو میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اس الزام کو رد کر چکے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری محمدزبیر بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں بالکل علم نہیں کہ ابراج گروپ نے نوید ملک کے ذریعے اے شریف برادران کو رشوت کی پیشکش کی تاہم انہوں نے اس کی نقوی کے الیکٹرک شنگھائی الیکٹرک کے ہاتھ بیچنا چاہتے تھے تاہم ن لیگ کی حکومت نے نے اس معاہدے کی کلیئرنس نہیں دی۔ محمد زبیر کے مطابق انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عارف نقوی اور عمران خان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں عارف نقوی نے تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے لیے خطیر رقم فراہم کی۔ وہ عمران خان کی اپیل پر فنڈ ریزنگ میں بھی حصہ لیتے ہیں، شاید اسی وجہ سے عمران خان ان افراد گروپ پر ہاتھ نہیں ڈال رہے کہ کہیں ان کے راز نہ کھل جائیں۔
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر خزانہ نہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ عارف نقوی کے خلاف کیسز منظرعام پر آنے کے باوجود ان کا وزیراعظم عمران خان کے ساتھ تعلق رہا اور وہ میٹنگ میں بھی بیٹھتے رہے ہیں۔ وزیراعظم کی شنگھائی الیکٹرک کے ساتھ میٹنگ میں بھی عارف نقوی شریک تھے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے دو ماہ قبل گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر واجبات کو معاف کرنے کا آرڈیننس سامنے آیا تھا۔ اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والوں میں افراد گروپ بھی شامل تھا کیونکہ کے الیکٹرک کے ذمہ بھی گیس ڈویلپمنٹ سیس کے تحت کئی ارب روپے واجب الادا ہیں۔ تاہم تنقید کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے اس صدارتی آرڈیننس کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
نیویارک کی عدالت ابراج گروپ اور ان کے دیگر شراکت داروں پر فردجرم عائد کرچکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عارف نقوی نے ابراج گروپ کے ذریعے مختلف کاموں کے لئے حاصل سرمائے کو اپنے اکاؤنٹس اور اپنے اہل خانہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیا۔ نیویارک کی عدالت کی جانب سے فرد جرم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عارف نقوی نے ایک اور پاکستانی سیاستدان کو ابراج کے فنڈ سے 2013 سے 2016 کے درمیان کئی بار رشوت دی تاہم اس پاکستانی سیاستدان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ ابراج گروپ مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا فنڈ گروپ مانا جاتا تھا اور پاکستان میں کے الیکٹرک ابراج کی ملکیت ہے جبکہ اس گروپ نے اسلام آباد میں ایک ڈائیگناسٹک سنٹر میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔