کپتان کا پاکستانی میڈیا کو مکمل کھسی کرنے کا منصوبہ

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا ہے کہ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار ہو چکے ہیں اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ملک مکمل انارکی کی طرف جارہا ہے۔ یہاں خانہ جنگی کی راہ تیزی سے ہموار کی جارہی ہے۔ انکا کہنا ہے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ دن رات ایک کر کے ملک بچانے میں لگے ہیں، وہ بھی نادانستہ طور پر ایسے راستے پر لگا دئیے گئے ہیں کہ جس سے الٹا ملک کے دشمنوں کو فائدہ ہوگا۔ صافی کہتے ہیں اللہ گواہ ہے کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جنکے ذریعے میں ان خطرات کا احاطہ کرسکوں جو پاکستان کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں۔
ملکی صورتحال کے بارے اہنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کا کہنا ہے کہ معیشت بدحالی کا شکار ہے، بلوچستان اور قبائلی اضلاع تو کیا گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر میں بھی لاوے پک رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کا چیلنج سنگین شکل اختیار کررہا ہے ۔ ان حالات میں ملک میں ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو سول سوسائٹی یا اپوزیشن جماعتوں اور سلامتی کے اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی بجائے الٹا ان کو آپس میں لڑوا رہی ہے ۔ صافی بتاتے ہیں کہ الیکٹرونک میڈیا کی رہی سہی حیثیت کو ختم کرنے، اسے معاشی طور پر مفلوج اور برائے نام آزادی سے محروم کرنے کے بعد سونامی سرکار نے اب ایک آرڈیننس تیار کیا ہے کہ جو اگر اسی شکل میں نافذ کردیاگیا تو پاکستان نام کا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو گا لیکن عملاً وہ شمالی کوریا بن جائے گا۔
صافی کہتے ہیں کہ عمران کی حکومت نے پاکستانی میڈیا کو غلام بنانے کے لیے جو نیا قانون تیار کیا ہے اس کے چیدہ چیدہ نکات آپ بھی ملاحظہ کیجئے :
آرڈیننس کا نام پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 ہے جس کی رو سے پیمرا وغیرہ کو ختم کرکے تمام ادارے ایک نئی اتھارٹی میں ضم کر دیے جائیں گے۔ سابقہ ایکٹس اور قوانین ختم ہوں گے یاان میں ترمیم ہوگی اورمیڈیا یا سوشل میڈیا سے متعلق تمام معاملات بھی اس اتھارٹی کے تحت آجائیں گے۔ یہ اتھارٹی فلم، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا یعنی ویب ٹی وی، آن لائن نیوز پلیٹ فارم وغیرہ کو بھی ریگولیٹ کرے گی۔نئے قانون کے تحت یوٹیوب چینلز، ایمازون پرائم، نیٹ فلیکس اور ویب ٹی وی وغیرہ چلانے کے لئے بھی حکومت سے لائسنس درکار ہوگا۔
ڈیجیٹل میڈیا پراجیکٹ کے لئے بھی اخبار کی طرح حکومتی اجازت ضروری ہوگی۔ اس اتھارٹی سے این او سی حاصل کئے بغیر ٹی وی اور اخبار کی طرح کوئی ڈیجیٹل چینل بھی نہیں چلاسکے گا۔ یہ اتھارٹی الیکٹرانک چینلز اور اخبارات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا چلانے والوں کے خلاف بھی اسی طرح کارروائی کرسکے گی جس طرح پیمرا الیکٹرانک چینلز کے خلاف کرتا ہے ۔نئے قانون کے تحت یہ اتھارٹی خودمختار نہیں ہوگی بلکہ وفاقی حکومت اس کو پالیسی ایشوز پر ہدایات جاری کرے گی اور وفاقی حکومت کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔
اس میڈیا کنٹرول اتھارٹی کا چیئرمین گریڈ 21 یا 22 کا سرکاری افسر ہوگا ۔ اس کے 24 ممبر ہوں گے جن میں گیارہ کی نامزدگی صدر وفاقی حکومت کے مشورے پر کرے گا۔ اس اتھارٹی کے تحت الیکٹرانک میڈیا ڈائریکٹوریٹ، پرنٹ میڈیا ڈائریکٹوریٹ اور ڈیجیٹل میڈیا اینڈ فلم ڈائریکٹوریٹ کام کریں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے لئے بھی صوبائی، قومی اور عالمی سطح پرالگ الگ لائسنس لینے ہوں گے۔
ڈیجیٹل میڈیا کو بھی انٹرٹینمنٹ، کڈز، اسپورٹس، نیوز ، ٹورازم اور اسی طرح کی کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے گا اور کوئی فرد صرف ایک شعبے کے لئے یوٹیوب چینل کا لائسنس حاصل کر سکے گا۔ ڈیجیٹل میڈیا کی بھی لائسنس فیس ہوگی۔ نئے قانون کے تحت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پابند ہوگا کہ وہ روزانہ پانچ فیصد حکومت کی طرف سے پبلک انٹرسٹ میں فراہم کردہ مواد کو چلائے گا۔ کسی کو ایسا مواد چلانے یا آن لائن کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں ہیڈ اف دج سٹیٹ ، آرمڈ فورسز یا عدلیہ کی بدنامی ہورہی ہو۔
پاکستانی میڈیا کو مکمل طور پر کسی کرنے کے کپتانی منصوبے کے مطابق اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی میڈیا شکایات کونسلز قائم کی جائیں گی جو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف شکایات سنیں گی۔ شکایات کونسل کے ساتھ ایک ایڈوائزری کونسل ہوگی جس کے آٹھ میں سے چار ممبر حکومت کے ہوں گے۔ اس کونسل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے۔ اسی طرح یہ اتھارٹی شوکاز نوٹس دیے بغیر اس اخبار ، ٹی وی چینل یا ڈیجیٹل چینل کے خلاف کارروائی کرسکے گی جس نے ایسا مواد نشر کیا ہو کہ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، یا جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچے یا جو مروجہ معاشرتی اقدارکے منافی ہو۔
اس ڈریکونین آرڈیننس کے مطابق صدر اپیلٹ کورٹ کے طور پر میڈیا ٹریبونل بنائے گا، جس کا چیئرمین ایسا شخص ہوگا جو ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔ باقی ممبران متعلقہ حلقوں سے مقرر کرے گا ۔ یہ ٹریبونل میڈیا کمپلینٹ کونسل یا اتھارٹی کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ یہ آرڈیننس کی رو سے میڈیا اور سوشل میڈیا سے ایک اپیل یعنی ہائی کورٹ میں اپیل کا حق چھین لیا گیا ہے اور اتھارٹی یا ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی، اس آرڈیننس کے تحت حکومت اور فوج کے ناقد میڈیا پرسنز کو تین سے پانچ سال قید تک کی سزا سنائی جاسکے گی اور پانچ کروڑ روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔ گویا یہ اتھارٹی نیب سے بھی زیادہ بااختیار ہوگی۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر خدانخواستہ حکومت اس آرڈیننس کو اس شکل میں نافذکرتی ہے تو پاکستان میں کہاں کی آزادی اظہار رہ جائے گا اور پھر کیا اس کے بعد یہ ملک آزادی اظہار کے لحاظ سے شمالی کوریا کا منظر پیش نہیں کررہا ہوگا؟

Back to top button