کپتان کی ریاست مدینہ کے صحافی اتنے گستاخ کیوں ہیں؟

حبیب جالب نے کہا تھا ’بولتے جو چند ہیں، سب یہ شرپسند ہیں، ان کی کھینچ لے زباں، ان کا گھونٹ دے گلا، میں نے اس سے یہ کہا، جن کو تھا زباں پہ ناز، چپ ہیں وہ زباں دراز۔‘ بالکل یہی صورتحال آج کل ریاست مدینہ کی ہے جہاں گستاخ صحافیوں کی ٹانگیں بازو توڑنے اور ان کی زبانیں کھینچنے کا عمل عروج پر ہے۔
معروف خاتون صحافی غریدہ فاروقی اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتی ہیں کہ صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ تشدد کے واقعات دراصل ہمارے میڈیا اور صحافیوں کو درپیش چیلنجز کی منظر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ جو بھی صحافی ظلم کے سامنے سرنڈر نہ کرے اور سچ بولنے پر مصر رہے، اسکی زبان بندی کے لیے وہی پرانے پاکستان والے اوچھے ہتھکنڈے استعمال جا رہے ہیں۔ زباں بندی کے مقصد کے حصول کے یہی اصول ہیں اُٹھا لو، ڈنڈے برسا دو، نوکری سے نکلوا دو. اگرچہ یہ داستاں تو طویل ہے مگر ظلم اور جبر کے اس قصے کو الفاظ میں مختصر اسی طرح کیا جاسکتا ہے کہ ریاست مدینہ میں کوئی بھی گستاخ کوئی بھی زباں دراز قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔
غریدہ کہتی ہیں کہ اگر یہ گستاخ صحافی فاشسٹ حکومت پر تنقید کریں گے تو انہیں ٹھکانے لگانے کے بہانے کم نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب تو میڈیا کی آزادی کو نشانے پر رکھ کر اور زباں بندی کی منصوبہ بندی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے نیا پلان بنایا جا رہا ہے۔ ایک ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے کہ کوئی زباں درازی نہ کرسکے۔ حکومت نے اس منصوبے کو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا نام دیا ہے۔ بظاہر لگتا تو یہ ہے کہ یہ بل میڈیا کی ترقی کے لیے لایا جا رہا ہے اور جس سے صحافیوں کی فلاح و بہبود مقصود ہے۔ لیکن اس بل کا متن اس کے لفظی معنوں کے بالکل اُلٹ ہے۔ بل کے متن کے مطابق چونکہ یہ ’جمہوری‘ دور ہے اس لیے میڈیا کو ’ضابطے‘ کے تحت چلنا ہوگا۔ یعنیٰ میڈیا کی سیلف ریگولیٹری کے ساتھ ساتھ اس میں حکومتی کردار بھی شامل ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرح اب سوشل میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کی سطح تک سخت قسم کی سنسر شپ بھی لانا چاہتی ہے۔
غریدہ کے مطابق اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو حکومت میڈیا کو ہر طرح سے انڈر پریشر رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت کے اس مجوزہ قانون کو اہلِ صحافت نے یکسر مسترد کردیا ہے۔ نہ صرف صحافتی تنظیموں بلکہ تمام میڈیا چینلز، اخبارات کی نمائندہ تنظیموں ، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں نے بھی آزادی صحافت پر حملے کے مصداق مجوزہ قانون کو رَد کردیا ہے۔ جس کے بعد حکومت کے لیے یہ ناممکن سا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں آزادی صحافت پر کوئی حملہ آور ہو رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ یوں تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی آزادی صحافت پر کسی نہ کسی انداز سے کچھ نہ کچھ پابندیاں لگتی رہی ہیں۔
غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ یہاں مجھے ’ایوبی‘ دور کا پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس بھی یاد آ رہا ہے جب تقریر اور تحریر کی آزادی کو بے رحمی سے زدو کوب کیا گیا تھا۔ کہانی طویل ہے اس لیے 50 کی دہائی سے آگے بڑھتے ہیں۔ سابق حکومتی ادوار میں بھی میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کی ٹھیک ایسی ہی کوششیں کی گئیں جیسا کہ موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ارادہ رکھتی ہے۔
تحریک انصاف کا ’پی ایم ڈی اے‘ ن لیگ کے سابقہ دور حکومت میں لائے گئے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی سے مختلف نہیں۔ جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے وہ ریاست کے چوتھے ستون کا شکار ضرور کرنا چاہتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت کا مطمع نظر ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح میڈیا کو جکڑ کے رکھے اسے قابو میں رکھے تاکہ ’ترقی‘ کے سفر پر منفی اثر نہ پڑے۔ کسی سیاسی جماعت کا ماضی بے داغ نہیں۔ ہاں اگر سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہو تو اس سے بڑا اہلِ صحافت کا ترجمان کوئی نہیں۔ اور جیسے ہی سیاسی جماعت اقتدار پر براجمان ہو جاتی ہے تو وہی ہوتا ہے جو جالب نے کہا تھا۔
غریدہ کے مطابق پی ایم آر اے کا قانون بھی کپتان حکومت کی طرز کا تھا جس کی ٹھیک اسی طرح بھرپور مخالفت کی گئی اور اس وقت کی لیگی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ یوں نواز حکومت میڈیا کو قابو کرنے کے منصوبے سے دور ہو گئی۔ اس مجوزہ کالے قانون کو اس سختی سے رَد کیا گیا کہ حکومت کو اسے رَدی کی ٹوکری میں پھینکنا پڑا۔ لیکن آج تحریک انصاف کی حکومت ایک قدم آگے بڑھ گئی ہے باوجود اس کے کہ وزیراعظم بار بار کہتے ہیں کہ میرے دور میں تو میڈیا بہت آزاد ہے اتنا آزاد ہے کہ برطانیہ سے بھی زیادہ۔
غریدہ کہتی ہیں کہ جب خان اپوزیشن میں تھے تو آزادی صحافت کا پرچار کیا کرتے تھے، یکجہتی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ خیر یہ سب دعوے تو تھے اقتدار سے پہلے کے جب خان اپوزیشن کے پہلوان تھے۔ اب ایسا کیا ہوا، آپ کے وہ دعوے، ارادے کیوں بدل گئے؟ اب کیوں وہی عمران خان کی حکومت صحافیوں کے لیے جینا مشکل بنانا چاہ رہی ہے؟ آج شہرِ اقتدار اسلام آباد بھی صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک شہر بن گیا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کو لے کر دنیا بھر میں پاکستان کی رینکنگ تنزلی کا شکار ہوگئی ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی رپورٹس بھی پاکستان میں اہلِ صحافت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کر رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت خود کے لیے کیوں نیا محاذ کھولنے جا رہی ہے؟ حکومت پہلے ہی بہت سے محاذوں اور بحرانوں میں گھری پڑی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن کھڑی ہے دوسری طرف اپنی ہی جماعت کا باغی گروپ۔ حکومت کے لیے موجودہ وقت نیا محاذ مول لینے کے لیے ویسے بھی موزوں نہیں۔ حکومت کیوں میڈیا کے خلاف ایک ایسے وقت میں طبل جنگ بجا رہی ہے جب اپنی مدت کے بالکل آخری حصے میں جا پہنچی ہے۔ حکومت کیوں صحافت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانا چاہتی ہے؟
غریدہ کہتی ہیں کہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود اہلِ صحافت کا حکومت کو یہی پیغام ہے کہ صحافی کسی صورت دبنے والے نہیں، وہ پہلے بھی قدغنیں برداشت کرتے رہے ہیں۔ وہ پہلے بھی اس قسم کی پابندیاں اور ہتھکنڈے برداشت کرتے رہے ہیں لیکن نہ جھکے ہیں نہ بکے ہیں اور آئندہ بھی ڈرنے والے نہیں۔ حکومت کو ہر صورت میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کا مجوزہ قانون واپس لینا پڑے گا کیونکہ صحافیوں کو کسی طور دبایا نہیں جا سکتا۔