کیا احساس پروگرام غیر قانونی طور پر چلایا جا رہا ہے؟
کپتان حکومت کی جانب سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا بی آئی ایس پی کو سماجی تحفظ کے فلیگ شپ پروگرام احساس میں تبدیل کرنے کے باوجود اس پروگرام سے متعلق سرکاری خط و کتابت اور بینکنگ ٹرانزیکشن اب بھی بی آئی ایس پی کے نام پر ہوتی ہے جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا یے کہ اس وقت احساس پروگرام کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ حکومت کو بی آئی ایس پی کو احساس میں تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے جو کہ پارلیمنٹ کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ نہ صرف موجودہ بلکہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے بھی بی آئی ایس پی کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایسا نہ کرسکی۔ یاد رہے کہ بی آئی ایس پی ایک سماجی تحفظ کا پروگرام ہے جس کے 37 عناصر ہیں۔ بی آئی ایس پی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ اب احساس پروگرام کے نام سے چلنے والے پروگرام کی سربراہی وزیراعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کررہی ہیں اور وہ بی آئی ایس پی کی بھی چیئرپرسن ہیں۔ تاہم عہدیدار نے کہا کہ بی آئی ایس پی ملک کا واحد سماجی تحفظ کا پروگرام ہے جس کو آئینی تحفظ حاصل ہے اس لیے احساس سے متعلق سرکاری خط و کتابت بی آئی ایس پی کے لیٹر ہیڈز سے ہی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت مند افراد کو چیکس کا اجرا بھی بی آئی ایس پی کے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے ہوتا ہے
یاد رہے کہ بی آئی ایس پی کو سال 2008 میں پیپلز پارٹی دور میں تب کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سابق صدر آصف زرداری کے ایما پر متعارف کروایا تھا۔ یہ پروگرام سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شکید کے نام سے منسوب ہے، جس کے تحت بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ غریب گھرانوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت سے اسے بڑھا کر 3 ہزار روپے کردیا تھا۔ جب بی آئی ایس پی کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ پروگرام سے متعلق سوالات کا اس وقت تک جواب نہیں دے سکتے جب تک بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن اس کی اجازت نہ دے دیں۔ ادھر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے جلد میڈیا کو بریف کریں گی۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے غریب خواتین کی مالی خود مختاری کے سماجی تحفظ کے منصوبے کے طور پر پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام متعارف کروایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام اور اس کے لوگو کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے تحفظ حاصل ہے اور اس میں پارلیمنٹ کے ذریعے ہی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2016 کے اوائل میں بی آئی ایس پی ملک سے غربت کم کرنے کا سب سے وسیع پروگرام بن گیا تھا جس سے 54 لاکھ سے زائد گھرانے مستفید ہورہے تھے اور معاشرے میں خواتین کا مقام مضبوط ہورہا تھا۔رہنما پی پی پی نے کہا کہ ‘ماضی میں بھی اس کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن عقل کام آگئی اور ایسا نہیں کیا گیا’۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی حکومت بی آئی ایس پی کے ڈیٹا سے 8 لاکھ غیر مستحق افراد کو نکال چکی ہے اور ضرورت مندوں کا نیا ڈیٹا مرتب کررہی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پی ٹی آئی حکومت باضابطہ اور آئینی طور پر بی آئی ایس پی کو احساس پروگرام میں تبدیل کرنے کی خواہاں تھی لیکن متوقع سیاسی ردِ عمل کی وجہ سے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ بہت بڑا سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت احساس پروگرام کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی تحفظ کیوں نہیں دے پا رہی۔