کیا افغان طالبان پاکستان میں بھرتیاں کر رہے ہیں؟
سوشل میڈیا پر گردش کرتی چند ویڈیوز میں پاکستان میں افغان طالبان کو افغانستان میں ’جہاد‘ کرنے کے لیے چندہ اکٹھا کرتے دکھایا گیا ہے۔ ٹوئٹر پر ایک صارف نے ایسی ہی ایک ویڈیو اپنے اکاؤنٹ پر پوسٹ کی جس کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ یہ گاؤں سندری علاقہ گوالدئی ضلع دیر بالا کی فوٹیج ہے۔ بظاہر خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں ایک طالب کو مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ایک شدت پسند افغانستان میں اتحادی فوجیوں کے خلاف جاری لڑائی کو ’جہاد‘ کا نام دے کر اس کو فرض ثابت کرنے کے لیے دلائل دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جن کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ یہ کس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور کب کی ہیں۔ پاکستانی سرزمین پر ایسی بھرتیوں کی کوششوں کی تشہیر مغربی میڈیا و سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہے۔ بعض ناقدین بھی اس بات کی ترویج کر رہے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندوں کے مختلف گروہ چندوں اور بھرتیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
14 مئی کو جرمن میگزین ’دیر شپیگل‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر یہ دعویٰ کیا کہ طالبان کو رسد، مالی امداد، اور ان کی صفوں میں نئی بھرتیاں پاکستان سے ہوتی ہیں، اور افغانستان کی سرزمین پر لڑنے والے طالبان جنگجوؤں کی ڈوریں پشاور شوری، کوئٹہ شوری اور میران شاہ شوری کے ہاتھوں میں ہیں۔
تاہم دوسری جانب خیبر پختونخواہ حکومت کے ذمہ داران نے اپنے صوبے میں طالبان کے نام پر چندہ اکٹھا کیے جانے اور بھرتیوں سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے مشیر کامران بنگش نے کہا: ’صوبائی حکومت کے پاس ایسے واقعات کی کوئی معلومات نہیں ہیں، تاہم ہم نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور وزارت داخلہ کو ان واقعات کی تفصیلی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔‘
لیکن خیبر پختونخوا کے بعض مقامی صحافی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان کی صفوں میں شامل پاکستانی جنگجوؤں کے ہلاک ہونے پر ان کی میتیں پاکستان لائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی ایک خبر میں کہا گیا کہ پاکستان سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چند ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں امام و خطیب طالبان کے لیے چندے اور بھرتیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی خبر میں پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر سرفراز خان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے لے کر کرم اور خیبر تک مولوی صاحبان لوگوں کو اسلامی امارات افغانستان میں شامل کرنے کے لیے ورغلاتے ہیں اور یہ کہ سرکاری اداروں نے اس حقیقت پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
اس بارے جب پروفیسر ڈاکٹر سرفراز سے استفسار کیا گیا کہ ایسی ویڈیوز کی اصل حقیقت کیا ہے اور ان کا یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے، تو انکا کہنا تھا کہ انہوں نے خود ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی ہیں جن میں مولوی شدت پسندوں کے لیے چندے اور بھرتیاں کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ’پچھلے دو مہینوں میں افغانستان سے طالبان جنگجوؤں کی لاشیں لائی جا رہی ہیں، جن میں صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دیر، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر، لکی مروت، وزیرستان اور دیگر بعض علاقوں میں ان جنازوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘پروفیسر نے کہا کہ ’اگر چندوں اور بھرتیوں کی بات واقعی پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے علم میں ہے اور وہ پھر بھی اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو یہ بات پاکستان کی بدنامی کا سبب بنے گی، اس کے علاوہ سفارتی سطح پر پاکستان کئی مشکلات کی زد میں آ سکتا ہے۔‘ پروفیسر سرفراز کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار ہمیشہ مشتبہ رہا ہے۔ ’اس جنگ میں پاکستان ایک جانب اتحاد میں شمولیت سے کوالیشن سپورٹ فنڈ لیتا رہا، تو دوسری جانب القاعدہ کا رہنما اسامہ بن لادن گیرزن سٹی ایبٹ آباد میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ اسی لیے پاکستان کی سکیورٹی اداروں کے کردار پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔‘
پاکستان میں طالبان کی صفوں کے لیے جنگجوؤں کی بھرتیوں اور ان کے لیے چندے اکٹھے کرنے جیسے الزامات پر مبنی رپورٹوں کے حوالے سے جب پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر اعجاز خان سے سوال کیا گیا کہ آیا اس قسم کی رپورٹیں حالیہ افغان بیانیے کا تسلسل یا پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش تو نہیں۔ جواب میں انکا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان میں طالبان کے لیے چندوں اور پاکستانیوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ افغان سرزمین پر جنگوں میں حصہ لینے جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔ جن ویڈیوز کا حالیہ رپورٹوں میں ذکر ہے یہ بات میرے علم میں نہیں ہے اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں طالبان کی بھرتیوں کے مراکز کہاں ہیں۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی جتنی تنظیمیں ہیں اس میں شامل جنگجو آسمان سے نہیں اترے۔ ظاہر ہے کہیں راہ چلتے، کسی مسجد، ویرانے یا ڈرائنگ روم میں لوگوں کو شدت پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی دعوت ملتی ہو گی۔‘
افغانستان میں حالیہ دنوں میں عید کے موقعے پر تین روزہ جنگ بندی کے بعد جہاں طالبان کے حملوں میں تیزی آئی وہیں افغان قیادت کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ مسلسل برقرار ہے۔
تاہم دوسری جانب معروف تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ ’اب حالات مختلف ہیں اور حکومت زیادہ سختی کر رہی ہے۔ وہ لوگوں کو سرحد پار کرکے افغانستان جانے اور طالبان کے لیے لڑنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘ البتہ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ’ہوسکتا ہے کہ کچھ دور دراز کے علاقوں میں افغانستان کی سرحد کے نزدیک کچھ افغان طلبہ جو پاکستانی مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں، وہ افغانستان جا کر طالبان کی مدد کرتے ہوں۔‘ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ 2001 میں طالبان کی حکومت گرنے اور حامد کرزئی کے اقتدار میں آنے کے وقت سے جاری ہے۔
افغان سیاسی رہنما ہر سطح پر اپنے ملک میں امن وامان کی بگڑتی صورت حال اور طالبان کی شکست تسلیم نہ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے آئے ہیں۔
رواں ماہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے افغان مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک جلسے کے دوران طالبان کو خبردار کیا تھا کہ ’پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں اپنے مفاد کی خاطر قربان کر دیں گی۔‘ حمد اللہ محب کے مطابق: ’نہ آئی ایس آئی آپ کو چاہتے ہیں، نہ ہی اقتدار کے حصول میں وہ آپ کی امداد کریں گے۔ انہوں نے آج تک آپ سے جھوٹ بولا ہے اور چاہتے ہیں کہ آپ ان کی جنگ میں ان کے لیے قربان ہو جائیں۔
افغان حکومتی میڈیا و اطلاعات و نشریاتی مرکز کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کے مطابق، افغانستان کے مطالبات واضح ہیں۔ ’ہمیں مکمل یقین ہے کہ ان دہشت گردوں کے ٹھکانے اور ان کو امداد پاکستان سے ملتی ہے۔‘ انہوں نے ایک ٹویٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک ٹویٹ میں بھی کہا کہ افغانستان میں جہاں بھی جنگ ہو رہی ہے وہ پاکستان اپنے کرائے کے طالبان کی مدد سے کروا رہا ہے۔ افغان سیاسی رہنما ہر سطح پر اپنے ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور طالبان کی شکست تسلیم نہ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے آئے ہیں۔ مئی کے مہینے میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے افغان مشرقی صوبے ننگرہار میں ایک جلسے کے دوران طالبان کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں اپنی مفاد کی خاطر قربان کر دیں گی۔ پاکستان نے حمداللہ محب کے اس بیان پر اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر کو خارجہ دفتر طلب کیا اور ان کے بیان پر سخت احتجاج کیا۔ 17 مئی کو پاکستان کے خارجہ دفتر نے اپنے ایک بیان میں افغان قیادت کو خبردار کیا کہ اس قسم کے بیانات نہ صرف دونوں برادر ملکوں کے درمیان اعتماد کی رہی سہی فضا کو ختم کر دے گی بلکہ یہ افغانستان میں جاری مذاکرات کے عمل میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
28 مئی کو پاکستان نے افغان قیادت کو اپنے اس فیصلے سے بھی آگاہ کیا کہ وہ افغانستان کے سلامتی ادارے کے ترجمان حمداللہ محب سے ان بیانات کے باعث سفارتی تعلقات رکھنے کا خواہاں نہیں ہے۔ پاکستان میں طالبان کے لیے بھرتی اور چندوں کی مبینہ ویڈیوز پر تبصرہ کرتے ہوئےاسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر وقار حیدر بخاری نے بتایا کہ اس طرح کی خبریں صرف پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست ثابت کرنے کی کوشش ہے۔
‘اس طرح کی افواہوں کے پیچھے ہمیشہ مقاصد ہوتی ہیں، لیکن کوئی اتنا بے وقوف کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ پاکستان میں اس طرح کی کوششوں سے ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت شرانگیزی پھیلانے والی دو قوتیں ہو سکتی ہیں جن میں ایک امریکہ اور ایک انڈیا شامل ہے۔‘