کیا اپوزیشن نے حکومت سے خفیہ سمجھوتہ کر لیا؟


پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی جانب سے سینیٹ میں انسانی حقوق کمیٹی سے دستبردار ہو کر اس کی سربراہی حکومتی سینیٹر ولید اقبال کو دینے کے بعد سے دونوں اپوزیشن جماعتیں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ ن لیگ کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور سابق سینیٹر پرویز رشید نے اس سودے بازی پر اپنی ہی جماعت کے سینیٹر مشاہد حسین کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے پارٹی قیادت سے معاملے کی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں مختلف قائمہ و فنکشنل کمیٹیوں کے نئے سربراہان منتخب کیے جا رہے ہیں جس میں ایک اہم پیش رفت 4 جون کو سامنے آئی جب ایک بند کمرہ اجلاس میں انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہی حزب اختلاف کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے حکومتی رکن سینیٹر ولید اقبال کے حوالے کی اور بدلے میں قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ منتخب ہوگئے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنما اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کے مطابق اگر حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ نہ کیا تو اس کی ذمہ دار بھی اپوزیشن ہو گی۔ خیال رہے کہ 4 جون کو انسانی حقوق کی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا تھا جس میں نئے چیئرمین کے انتخاب کا معاملہ زیر بحث آیا۔ خیال رہے کہ انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سے دوری اختیار کرنے پر اختلاف رائے کیا تھا۔ کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں پیپلز پارٹی نے سینیٹر مصطفی نواز سے ناراضگی کی وجہ سے انہیں دوبارہ چیئرمین منتخب کروانے کی بجائے یہ کمیٹی مسلم لیگ ن کو تحفے میں پیش کی جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے نہ جانے کس کے کہنے پر اس کمیٹی کو حکومتی رکن سینیٹر ولید اقبال کے حوالے کردیا جس کے باعث اپوزیشن کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل گئی ہے۔
اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، جو کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ تھے، نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ اس کمیٹی کی سربراہی حکومت کے پاس جانے اور اسے فنکشنل کمیٹی سے قائمہ کمیٹی میں تبدیل کرنے سے اس کے پر کاٹے گئے ہیں۔’میں نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا مگر سامنے کی سیٹوں پر خاموشی حیران کن تھی۔ اس کے جواب میں سینیٹر شیری رحمان نے وضاحت پیش کی کہ پیپلز پارٹی نے انسانی حقوق کی کمیٹی کا سودا دفاعی امور کی کمیٹی سے نہیں کیا۔ ہمارے لیے یہ سب سے اہم کمیٹی ہے۔انسانی حقوق کی کمیٹی ن لیگ کے پاس گئی اور انھوں نے سے حکومتی رکن ولید اقبال کے سپرد کردیا۔
انسانی حقوق کمیٹی کی چیئرمین شپ سے متعلق ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر شدید تنقید کے بعد مسلم لیگ نواز کے سابق سینیٹر پرویز رشید نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہمارے ہاں روز کا معمول ہیں، اس کی سینیٹ کمیٹی نشانہ بننے والوں کو تحفظ اور انصاف مہیا کرانے کا ایک ذریعہ ہے۔’افسوس ہے کہ مشاہد حسین سید نے اس کی سربراہی حکومت کو دے کر دفاع کی کمیٹی حاصل کر لی، اب متاثرین کی آہوں کے مجرم ہم بھی ہوں گے۔ اس ضمن میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی یعنی پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں انسانی حقوق کو اہم مسئلہ سمجھا گیا اس لیے اس کی فنگشنل کمیٹی قائم کی گئی۔ ۔احمد بلال محبوب کے مطابق قائمہ کمیٹی کی سربراہی حکومت یا اپوزیشن کے پاس جانے سے اس لیے فرق پڑتا ہے کیونکہ چیئرمین قائمہ کمیٹی کا کردار اہم ہوتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کا سربراہ مزکورہ کمیٹی کا ایجنڈا طے کرتا ہے اور میٹنگ کال کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔ان کے مطابق چیئرپرسن کے پاس یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی کمیٹی اپنی مدت کے دوران کتنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے کمیٹی کی سربراہی کرنا اہم اس لیے ہے کہ حکومت سے وابستگی رکھنے والا سربراہ اپنی حکومت پر ایک حد تک تنقید ہی کرسکتا ہے۔ ‘اسے حکومت اور حکومتی اراکین کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے کہ آپ اپنی ہی جماعت و حکومت کو بدنام کر رہے ہو۔ یہ مسئلہ اپوزیشن کے چیئرمین کے ساتھ نہیں ہوتا، وہ بغیر کسی دباؤ اور حد کے فعال کردار ادا کرسکتا ہے، مسئلے اٹھا کر میڈیا پر لا سکتا ہے۔’وہ بتاتے ہیں کہ ہیومن رائٹس اور پبلک اکاؤنٹس جیسی اہم کمیٹیوں کے بارے میں یہ روایت بن چکی ہے اسے اپوزیشن کو ہی ہیڈ کرنا چاہیے تاکہ ان کی افادیت زیادہ ہو۔
پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک کے پارلیمان میں ہیومن رائٹس کی کمیٹی اس لیے اہم ہے کیونکہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے کیسز سامنے آتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور لاپتہ افراد کے کیسز کم نہیں ہوئے۔ایسے میں ‘یہ بہت اہم ہے کہ انسانی حقوق کی کمیٹی کسی ایسے شخص کے پاس ہو جو اسے فعال کر سکے اور حکومت کو مسائل سے متعلق باور کرا سکے۔قومی اسمبلی میں انسانی حقوق کی کمیٹی کے سربراہ بلاول بھٹو ہیں جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔احمد بلال کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں کمیٹیوں کی سربراہی اس لیے بھی تبدیل ہوئی ہے کیونکہ ایوان بالا میں اپوزیشن کی نمائندگی کم ہوئی ہے۔ ہمیں اس حوالے سے مزید تصدیق کرنی چاہیے کیونکہ اس سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے کہ انھوں نے کیسے سینیٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹی کو کم اہمیت دی؟

Back to top button