کیا تحریک لبیک چیف سعد رضوی کو رہائی مل پائے گی؟


مستقبل قریب میں تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی جیل سے رہائی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کے بڑے بیٹے سعد رضوی کو چند ماہ قبل فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کرنے پر شروع ہونے والے ملک گیر ہنگاموں کے بعد حراست میں لے لیا گیا تھا۔ بعدازاں سعد رضوی کے خلاف ان ہنگاموں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے الزام میں اقدام قتل کے مقدمات درج کر لیے گئے تھے۔
اب لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سعد رضوی کی رہائی کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کرنے کے بعد اسٹیبلشمینٹ کی آشیرباد سے محروم ہو جانے والے تحریک لبیک کے سربراہ کو عدالت عظمیٰ سے ریلیف ملتا ہے یا نہیں؟
سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست ان کے چچا امیر حسین نے برہان معظم ملک کی وساطت سے دائر کی ہے۔ درخواست میں پنجاب حکومت، ڈپٹی کمشنر لاہور اور سی سی پی او لاہور کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کاموقف ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست خارج کرنا خلاف قانون فیصلہ ہے، انکا موقف ہے کہ سعد حسین رضوی کے خلاف کوئی مواد ریکارڈ پر موجود نہیں، اور لاہور کے ہنگاموں کے دوران پولیس کے ہاتھوں تحریک لبیک کے 26 ورکرز شہید اور 450 زخمی ہوئے تھے لیکن پھر بھی سعد رضوی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کرنے کی اطلاعات ہیں۔
سعد رضوی کے چچا نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کہ لاہور ہائی کورٹ نے قانونی تقاضے پورے کئے بغیر 24 مئی 2021 کو سعد کی نظر بندی کے خلاف دائر کردہ ان کی درخواست خارج کی۔ اب سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ سعد رضوی کی نظر بندی کالعدم قرار دے کر انکی جیل سے فوری رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 12 اپریل 2021 کے افسوس ناک واقعات کی ذمہ داری بلاوجہ حافظ سعد رضوی پر ڈال دی گئی ہے حالانکہ تب سعد پولیس حراست میں تھے اور انہوں نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کے لیے نہ تو کوئی خطاب کیا اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا لہذا انہیں بغیر کسی الزام کے مہینوں تک مسلسل زیر حراست رکھنا غیر قانونی ہے۔
سعد کی رہائی کے لیے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور کی ضلعی انتظامیہ اور دیگر ادارے تاحال انکے وکلا کو اس حوالے سے مطمئن نہیں کر سکے کہ سعد کو آخر کن دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی کمشنر لاہور سے سعد رضوی کی رہائی کے لیے رابطہ ہوا تو انہوں نے یقین دھانی کروائی تھی کہ سعد کو جلد رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم ابھی تک انہیں امن عامہ سے 1960 کے قانون مینٹیننس آف پبلک آرڈیننس کی رو سے بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر سعد کی گرفتاری کیوں کی گئی۔ سعد کے چچا امیر حسین نے مؤقف اختیار کیا کہ کوٹ لکھپت جیل لاہور کے سپرٹنڈنٹ اور تھانہ نوانکوٹ کے ایس ایچ او نے انکے بھتیجے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے جسکا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خادم رضوی کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کی سماعت انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اب تحریک لبیک پر سے دست شفقت اٹھا لیا ہے اور حکومت بھی اس پر مکمل پابندی عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری جانب تحریک لبیک نے پہلے ہی وزارت داخلہ کی جانب سے خود پر لگائی جانے والی پابندی کے خلاف ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس کا فیصلہ بھی وزارت داخلہ نے ہی کرنا ہے۔

Back to top button