کیا شاہ محمود واقعی کپتان کے خلاف سازش کر رہے ہیں؟


پاکستانی تاریخ میں سیاست دانوں کے فون ٹیپ ہونا کوئی انوکھی بات بالکل بھی نہیں بلکہ ماضی میں تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے علاوہ ریاستی اداروں پر بھی جاسوسی کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں اور تو اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی گذشتہ برس ایک ٹی وی پروگرام میں تسلیم کیا تھا کہ آئی ایس آئی ان کے فون ریکارڈ کرتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے فوج بھی جانتی ہے کہ میں کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوں جبکہ اپوزیشن کی ساری قیادت کرپٹ ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا گیا تھا کہ کیا وہ فوج اور ایجنسیوں کو جواب دہ ہیں یا ان کے ماتحت ادارے انہیں جواب دہ ہیں۔ اب اسی تناظر میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران کو خان چاہئے کہ وہ آئی ایس آئی کے ذریعے شاہ محمود قریشی کا فون ٹیپ کریں کیونکہ وہ انکی جگہ خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ جب وہ ہمارے وزیر خارجہ تھے تو دنیا بھر میں مہم چلاتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی کو نہیں بلکہ مجھے وزیر اعظم بنا دو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو وزارت خارجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ شاہ محمود کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ عمران خان کی جگہ وزیراعظم بننے کے متمنی ہیں اور اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرتے رہتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کو اپنے وزیر کی جاسوسی کے لیے آئی ایس آئی کی مدد لینے کا مشورہ دینا کوئی طنز تھا یا مذاق، یہ تو بلاول ہی جانتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا بلاول کی جانب سے ایسا مطالبہ کیا جانا جائز تھا خصوصاً جب ان کی والدہ بینظیر بھٹو اپنے سیاسی کریئر کے دوران ایجنسیوں کی جانب سے اسی قسم کی جاسوسی کی شکایت اور مذمت کیا کرتی تھیں۔ لیکن پاکستانی تاریخ میں سیاستدانوں کے فون ٹیپ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ماضی میں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اور ریاستی اداروں پر جاسوسی کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔
عمران خان نے خود ایک ٹی وی پروگرام میں اس حوالے سے بات کی تھی۔ اینکر منصور علی خان کے ایک سوال کے جواب میں عمران نے کہا تھا کہ ’کئی وزیر اعظم آتے ہیں، اپنی فیکٹریاں لگاتے ہیں، باہر فلیٹس ہوتے ہیں وہ باہر پیسہ بھجواتے ہیں لیکن فوج کو سب پتا ہوتا ہے۔‘عمران خان نے اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود بھی جو کچھ کرتے ہیں آئی ایس آئی کو اس کا علم ہوتا ہے۔ ’میں جو بھی کرتا ہوں، جو میں ٹیلی فون کرتا ہوں جو بھی مجھے رابطہ کرتا ہے آئی ایس آئی اور آئی بی کو پتہ ہوتا ہے۔‘
غیر ملکی خبر رساں ادارے سے منسلک صحافی منیر احمد نے نوے کی دہائی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’پاکستان میں ’انٹیلیجنس ایجنسیوں کا سیاسی کردار‘ میں ماضی میں سیاستدانوں کے فون ریکارڈ ہونے کے واقعات کے حوالے سے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف کی گئی سازش کے بارے میں لکھا ہے کہ کس طرح انٹیلیجنس بیورو نے فوج اور آئی ایس آئی افسران کے فون ٹیپ کیے۔ کتاب میں ایک جگہ آئی بی کی رپورٹ کے کچھ حصے بھی پیش کیے گے جو کچھ یوں ہیں: ’یہ جاننے کے بعد کہ فوج کے بعض افسران نے بشمول آئی ایس آئی کے ایسے افسران جو خفیہ ادارے میں کام کر چکے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے بعض اراکین کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی جس کا مقصد پی پی پی کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔ ’مڈنائٹ جیکال‘ کے نام سے انٹیلی جنس بیورو نے ایک آپریشن مکمل کیا۔ اس آپریشن کے دوران ایسے انتظامات کیے گئے جن کے باعث سازش میں شامل تمام افراد کی گفتگو ٹیپ کر لی گئی اور انھیں اس کا علم بھی نہیں ہو سکا۔‘
منیر احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انٹیلیجنس بیورو کی اس رپورٹ کی روشنی میں بینظیر بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اہم اقدامات کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلم بیگ نے پی پی پی کی حکومت کے خلاف سازش کرنے والے فوجی افسران کے خلاف بہت معمولی ایکشن لیا۔ تاہم پاکستان کے سویلین انٹیلیجنس کے ادارے اینٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک نے آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے بارے میں بتایا کہ ’پیپلز پارٹی کے ایم این ایز کو کہا جا رہا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں بینظیر بھٹو کو ووٹ نہ دیں۔ ایک جگہ بیٹھ کر یہ بات چیت ہو رہی تھی اور پھر اس کی ویڈیو اور ٹیپس سامنے آئیں جن کو بینظیر بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو پیش کیا اور پھر فوج نے اس کے خلاف ایکشن بھی لیا۔‘
اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہ ایک عام رواج تھا کہ اکثر خفیہ ٹیپس مخالفین کے پاس آ جاتی تھیں اور اُن کا غلط استعمال کیا جاتا تھا۔’پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اس زمانے میں جھگڑا تھا، تو یہ چلتا رہا۔ کبھی تصاویر آ جاتی تھیں۔ ایک بینکر کے ساتھ فاروق لغاری کی تصویریں آ گئی تھیں، پھر انکی اراضی کا سکینڈل آ گیا۔ تو اس طرح کے معاملات چلتے رہتے تھے جو ایک بری روایت تھی۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’سب سے مشہور آڈیو ٹیپ جو لیک ہوئی تھی وہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس قیوم، احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمان، وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کی ان ججز کے ساتھ گفتگو کی تھی جنھوں نے بینظیر بھٹو کو ایک کیس میں سزا سنائی تھی۔ وہ آڈیو بین الاقوامی میڈیا میں بھی نشر ہوئی۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو کے خلاف جو فیصلہ سُنایا گیا تھا وہ واپس ہوا اور سپریم کورٹ کے دو ججز کو بھی مستعفیٰ ہونا پڑا تھا۔‘
تاہم یہ خفیہ کیسٹس سیاسی جماعتوں کے پاس کہاں سے آتی ہیں، اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہو سکتے کہ وہ ان ٹیپس کو حاصل کریں۔
’یہ کیسٹس ایجنسیوں کی بدولت ہی حاصل کی جاتی تھیں اور شاید ایجنسیوں کا کوئی نہ کوئی بندہ ان کو لیک کر دیتا تھا۔‘ تاہم سوال یہ ہے کہ ایجنسیاں کس کی اجازت سے سیاستدانوں کے فون ریکارڈ کرتی ہیں؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کئی مواقعوں پر ایک دوسرے کے خلاف خفیہ ریکارڈنگ سامنے لائی ہیں جنھوں نے بعد میں بڑے سکینڈلز کا رُخ بھی اختیار کیا۔
صحافی اور تجزیہ کار عمر فاروق نے بتایا کہ سنہ 1993 میں نواز شریف کی حکومت کے تحلیل ہونے کے بعد جب سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کر رہی تھی تو عدالت کے سامنے ججز کے فون ریکارڈ کرنے کا معاملہ بھی آیا تھا۔
’عدالت میں بند کمرے میں ہونے والی سماعت کے دوران ججوں اور سیاستدانوں کی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ کے مواد کا تحریری ریکارڈ بھی پیش کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے گیارہ ججز کے فون ریکارڈ کیے گئے جو وزیر اعظم کی ہدایت پر کیا گیا تھا۔ کچھ ایسی بھی اطلاعات آئیں کہ انٹیلیجنس بیورو آرمی چیف کے فون بھی ریکارڈ کرتی تھی۔ انکامکہنا تھا کہ وزیراعظم اور پارلیمان کا یہ کام ہے کہ وہ تمام سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔ دنیا بھر میں جہاں پارلیمانی جمہوریت ہے وہاں پر انٹیلیجنس ایجنسیوں سے پارلیمان میں سوال جواب ہوتا ہے۔‘
لیکن موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فون ریکارڈ کیے جانے والے بیان پر عمر فاروق کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ انٹیلی جینس ایجنسی وزیر اعظم کی نگرانی کر رہی ہے جو کہ دیگر جمہوریتوں میں رائج روایت کے برعکس ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر آپ امریکہ میں کسی سینیٹر کے فون کو ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو آپکو عدالت سے اجازت لینا ہو گی، جج کے سامنے جانا ہو گا، اس کے سامنے دستاویزات رکھنا ہوں گی کہ ہم اس شخص کا پیچھا کیوں کر رہے ہیں، اس کی نگرانی کیوں کر رہے ہیں، اور کیسے اس کے فون ٹیپ ریکارڈ کرنا قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ جج دستاویزات کو دیکھے گا، آپ کے دلائل سُنے گا، اس کے بعد یا تو اجازت دے گا یا آپ کی درخواست مسترد کر دے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ کسی بھی سیاستدان یا انفرادی شخص کی فون کالز کو ٹیپ کرنے کا مغربی جمہوریتوں میں یہ ہی طریقہ رائج ہے، لیکن پاکستان میں ’پارلیمانی یا عدالتی نگرانی ہے ہی نہیں اور ایجنسیاں اس بارے میں خودمختار ہیں۔ تاہم پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ خفیہ ادارے اپنی مرضی سے وزیراعظم سے لیکر پوزیشن لیڈر تک کہ فون ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر ان کی بنیاد پر سیاسی انجینئرنگ کی جاتی ہے۔

Back to top button