کیا شوکت ترین کی بھی چھ ماہ بعد چھٹی ہو جائے گی؟
معلوم ہوا ہے کہ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کو اس وقت یہ پریشانی لاحق ہو چکی ہے کہ اگر وہ چھ ماہ کے اندر سینیٹر منتخب نہ ہوئے تو انہیں بھی حفیظ شیخ کی طرح وزارت خزانہ سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔ تاہم دوسری جانب پارلیمنٹ کے منتخب اراکین کو حلف نہ اٹھانے کی بنیاد پر ڈی سیٹ کروانے کا قانون متعارف کروانے کے لئے کوشاں حکومت نواز لیگ کے لندن میں مقیم سینیٹر اسحاق ڈار کو فارغ کروا کر اپنے وزیر خانہ شوکت ترین کو اس سیٹ پر الیکشن لڑانے سے اس لئے ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ کہیں کپتان سے ناراض ترین گروپ کے ارکان پنجاب اسمبلی بغاوت کرتے ہوئے شوکت ترین کے ساتھ بھی حفیظ شیخ والی واردات نہ ڈال دیں۔
واضح رہے کہ حفیظ شیخ کی جگہ وفاقی وزیر خزانہ بنائے جانے والے شوکت ترین کے پاس آئینی اور قانونی اعتبار سے وفاقی کابینہ میں برقرار رہنے کے لئے رواں برس اکتوبر تک کا وقت ہے کیونکہ وہ چھ ماہ سے زیادہ اس سیٹ پر منتخب ہوئے بغیر برقرار نہیں رہ سکتے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مشیر کی حیثیت سے 27 جولائی 2009 کو شوکت ترین کو ٹیکنوکریٹس کے لیے مخصوص سینیٹ کی نشست پر سندھ سے بلامقابلہ منتخب کروایا گیا تھا جس کے بعد انہیں خزانہ امور کا وفاقی وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بننے کے بعد جب انہیں چھ ماہ کے اندر سینٹر منتخب کروانے کی کوشش کی گئی تو وہ یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کھا گے اور کابینہ سے باہر کر دیے گئے۔
حفیظ شیخ کی شکست کے بعد جہانگیر ترین پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے گروپ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے حفیظ کی جگہ گیلانی کو ووٹ دیے تھے۔ چنانچہ یہ بات سامنے آنے کے بعد عمران خان اور جہانگیر ترین میں اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو گئی اور کپتان حکومت نے ترین کے خلاف شوگر انکوائری میں کارروائی تیز کردی۔ ردعمل کے طور پر جہانگیر ترین نے باقاعدہ اپنا گروپ تشکیل دے دیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف چلنے والے کیس میں انصاف کیا جائے۔ تاہم ابھی تک اس معاملے میں ترین اور کپتان میں تناؤ عروج پر ہے اور ایسا کوئی امکان نہیں کہ اگر حکومت شوکت ترین کو سینیٹر بنوانے کی کوشش کرے تو ترین گروپ ان کا ساتھ دے۔
لہذا حفیظ شیخ کی جگہ وزیر خزانہ بنائے جانے والے شوکت ترین کو بھی اب ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں جہانگیر ترین گروپ کی ممکنہ بے وفائی کے بعد پی ٹی آئی حکومت کو ڈر ہے کہ کہیں حالیہ سینیٹ انتخابات میں ڈاکٹر عبد حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین بھی سینیٹ الیکشن ہار نہ جائیں، اسی وجہ سے حکومت وزیر خزانہ شوکت ترین کو سینیٹر بنانے میں تذبذب کا شکار ہے۔ دوسری طرف 2 ماہ قبل الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی آرڈیننس وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد بھی جاری نہیں ہو سکا۔ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ بجٹ اجلاس میں ترین گروپ کی حمایت یا مخالفت کا اندازہ لگانے کے بعد آرڈیننس بارے حتمی فیصلہ ہوگا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ آرڈیننس کے اجراء سے مسلم لیگ (ن) کے اسحاق ڈار کی سینیٹر شپ ختم ہو جائے گی، اور اسی خطرے کے پیش نظر چوہدری نثار نے بطور رکن۔پنجاب اسمبلی تین برس بعد حلف اٹھایا تھا، حکومتی پلان کے مطابق اسحاق ڈار کے ڈی سیٹ ہونے پر الیکشن کمیشن 45 دن کے اندر پنجاب سے سنیٹ کی نشست پر ضمنی انتخاب کرانے کا پابند ہوگا۔ جمعرات کو سنیٹ اجلاس ملتوی ہونے اور جمعے کو قومی اسمبلی اجلاس بلانے کے درمیان بھی حکومت نے آرڈیننس کا اجرا نہیں کیا، اور اب بجٹ اجلاس کے باعث الیکشن ترمیمی آرڈیننس کا معاملہ مزید التواء کا شکار ہوگیا ہے، کیوں کہ آرڈیننس کا اجراء قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران نہیں ہوسکتا، قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 30 جون تک چلے گا، اور آرڈیننس بجٹ اجلاس کے بعد ہی جاری کیا جاسکے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کپتان حکومت شوکت ترین کو سینیٹر بنوانے کے حوالے سے مختلف آپشنز اور حکمت عملی پرغور کررہی ہے، جب کہ حکومت کی آئینی و قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو تمام امور اور قانونی پہلوؤں بارے بریفنگ دے دی ہے۔ تاہم اگر حکومت کو شوکت ترین کو منتخب کروانے کے لیے جہانگیرترین گروپ کی حمایت نہ مل سکی تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ نئے وزیر خزانہ بھی چھے ماہ بعد کابینہ سے باہر ہو جائیں گے۔