کیا عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ پائیں گے؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اگر عمران خان حکومت اپنے اقتدار کی بقیہ مدت کے دو سال پورے کر لے تو بھی اگلے الیکشن میں اس کی جیت ممکن نظر نہیں آتی۔
اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر کوئی حادثہ نہ ہوا تو ملکی سیاست کا ہدف اب اگلے انتخابات ہیں۔
ملک کے معاشی اشاریوں میں بہتری کا دعوی کرنے والی حکومت کے کرتا دھرتا افراد یہ اُمیدا لگا رہی ہیں کہ وہ اگلا الیکشن بھی باآسانی جیت جائیں گے حالانکہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں کوئی بھی وفاقی حکومت مسلسل دو بار انتخابات جیت کر حکومت نہیں بنا سکی۔ ویسے بھی عوام میں حکومت بارے عمومی تاثر کے باعث عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے یہ ریکارڈ توڑنا ازحد مشکل ہو گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت کی زمینی صورتحال کا جائزہ لیں تو اگلے الیکشن میں پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا آمنا سامنا ہو گا۔ اگر انتخابات سے پہلے توڑ پھوڑ اور مداخلت نہیں ہوتی تو پھر تاحال ن لیگ کا پلہ بھاری نظر آتا ہے تاہم پی ٹی آئی بھی دو پارٹی نظام کے تحت 2018ء کی نسبت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور ہر جگہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے گی۔ اگر اگلے انتخابات کا خاکہ تیار کیا جائے تو سوچنا پڑے گا کہ کیا اس وقت کے زمینی حالات 2018ء والے ہوں گے، 97ء والے ہوں گا یا بالکل کوئی نئی صورتحال ہو گی۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ انتخابی گھوڑوں میں کس طرح کی ہوا چلتی ہے اور کس طرف کے اشارے ملتے ہیں۔ سہیل وڑائچ کے مطابق صاف بات یہ ہے کہ اگر تو نواز لیگ کو باری نہیں ملنی تو اگلے انتخابات سے پہلے پہلے ن لیگ کے اندر دھڑے بندیاں گہری کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اگر پی ٹی آئی کو دوبارہ باری نہیں دینی تو پھر اس کے اندر سے ترین گروپ کے بعد ایک اور بڑا دھڑا نکلے ہوگا جو بالآخر اپنی صفیں الگ کر لے گا۔ گویا انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کا خاکہ اس وقت تیار ہوگا جب پارٹیوں کے اندر توڑ پھوڑ شروع ہو گی۔ ہر الیکشن سے پہلے یہ توڑ پھوڑ ہوتی ہے مگر اس بار اس میں زیادہ زور و شور کا امکان ہے۔
سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی فالٹ لائنز کا سب کو علم ہے اور ان کو گہرا کر کے سیاسی دھڑوں میں تبدیل کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ نون لیگ میں نواز اور شہباز کی مزاحمتی اور مصالحتی سوچیں موجود ہیں۔ اگر ان سوچوں کو گہری نظر سے دیکھیں تو پارلیمانی پارٹی کا زیادہ جھکاؤ نواز لیگ کی مصالحتی سیاست کی طرف ہے جبکہ نظریاتی کارکنوں اور جماعتی عہدیداروں کا جھکاؤ مزاحمتی سیاست کی طرف ہے۔  اگر تو فری فار آل سیاست ہوتی ہے تو مریم نواز عوامی مقبولیت کے سہارے آسانی سے گول پر گول کریں گی لیکن اگر کنٹرولڈ سیاست ہوئی تو پھر ن لیگ میں قرعہ فال شہباز شریف کے نام نکلے گا۔
سہیل وڑائچ کے خیال میں اسی طرح تحریک انصاف کی فالٹ لائنز بھی بڑی واضح ہیں۔ ترین گروپ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جنوبی پنجاب اور پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والے زیادہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر بھی بہت بےچینی ہے اگرچہ اس بار ارکانِ اسمبلی کو پہلی بار ترقیاتی فنڈز ملے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی محرومیوں کے شکوے پارلیمانی گیلریوں میں بکھرے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف اپنے اکثر اتحادیوں کو بھی راضی رکھنے میں ناکام ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔ لہازا سہیل ورائچ اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگلے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے اندر سے ایک اور بڑا گروپ جنم لے سکتا ہے جس میں زیادہ تر بیک بینچرز اور شنوائی نہ ہونے والے ارکان موجود ہوں گے۔ جنوبی پنجاب کے اراکین کی تعداد ان میں زیادہ تعداد ہو سکتی ہے۔
 اگر تو ایسا گروپ واقعی سامنے آ گیا اور پھر پی ٹی آئی نے ترین گروپ کو بھی ٹکٹ نہ دیے تو پھر تحریک انصاف کے لئے میدان میں انتخابی گھوڑے کم رہ جائیں گے اور انکے مخالف پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے گھوڑوں کو اپنی سبز چراگاہوں میں مدعو کر لیں گے۔
لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق سیاست کے اس جوڑ توڑ میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اگلے الیکشن کے وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ کن عناصر پر مشتمل ہو گی اور وہ الیکشن کو کتنا شفاف رکھنا چاہتے ہوں گے؟
توقع یہی کرنی چاہئے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی انتخابات پہلے سے بہتر صورتحال میں منعقد ہوں گے۔ ضمنی انتخابات میں جس طرح سے قواعد و ضوابط کو سختی سے لاگو کیا گیا ہے اگر یہی صورت حال مستقبل میں بھی رہی تو آئیندہ الیکشن میں بےقاعدگیاں مذید کم ہوتی جائیں گی۔
اگر سیدھا حساب لگایا جائے تو ابھی اگلے الیکشن میں دو سال پڑے ہیں۔ پاکستانی سیاست کو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ دو سال بھی بےکیف نہیں گزر سکتے۔ پاکستان میں سیاست حادثات اور واقعات کی محتاج ہوتی ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کل ہی کوئی ایسا حادثہ یا واقعہ رونما جائے جو حکومت کو بیک فٹ پر لے جائے، حزب اختلاف جارحانہ رویہ اختیار کر لے، عوامی بےچینی بڑھ جائے، جلسے جلوس شروع ہو جائیں، اور کچھ ہو جائے۔ ایسا ہم نے پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے، اور ایسا ایک بار پھر بھی ہو سکتا ہے۔

Back to top button