کیا فائز عیسیٰ کا کھیل ختم ہو چکا یا وہ اب بھی گیم میں’اِن‘ ہیں؟
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شہباز حکومت کے ترجمان عطااللہ تارڑ کے ان بیانات کے بعد کہ جسٹس منصور علی شاہ ہی قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے چیف جسٹس ہوں گے، اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ فائز عیسیٰ کا سپریم کورٹ میں کوئی مستقبل نہیں، لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مجوزہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس ہوں۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت کے مجوزہ ائینی ترمیمی پیکج میں ایک پانچ رکنی ائینی عدالت بنانے کی بات کی گئی ہے جو سیاسی اور آئینی مقدمات سنے گی، جبکہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کے کیسز تک محدود کر دیا جائے گا۔ مجوزہ ترمیمی مسودے کے مطابق اس پانچ رکنی آئینی عدالت میں وفاق کے علاوہ ہر صوبے سے ایک جج لیا جائے گا۔ تجویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کوئی حاضر سروس جج یا کوئی ریٹائرڈ جج بھی لگایا جا سکتا ہے۔ لہذا فائز عیسی اگر بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ ریٹائر ہو بھی جائیں تو بھی وہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی دوڑ میں شامل رہیں گے۔ مجوزہ آئینی عدالت کے باقی چار ججز ہر صوبے کی ہائی کورٹ سے لیے جانے کی تجویز ہے۔
یاد رہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے، اور سپریم کورٹ کے معزز ججز کو متنازع بنانےکی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ بلاول نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس اور آنے والے چیف جسٹس دونوں ہمارے لیے معزز ہیں، انہوں نےکہا کہ ایک تجویز ہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا پروسیجر دوبارہ وزیر اعظم کے پاس آ جائے، جیسا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے کیا گیا تھا جسے کہ افتخار محمد چوہدری کے دباؤ پر 19 ویں ترمیم کے ذریعے تبدیل کر دیا گیا۔ اس سے پہلے بلاول بھٹو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ سے 19ویں آئینی ترمیم کنپٹی پر بندوق رکھ کر کروائی گئی تھی۔ بلاول بھٹو کاکہنا تھاکہ عدالتی اصلاحات پاکستان کےلیے ضروری ہےاس پر اعتراض نہیں ہوناچاہیے، انکا کہنا تھا کہ ہم نے تو خواہش ظاہر کی ہے کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر آئینی ترمیم منظور کرائیں اور ایک آئینی عدالت بنائیں تاکہ عام آدمی کو جلد انصاف مل سکے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے اتفاق رائے کے بغیر آئینی ترمیم منظور کروانا ممکن نہیں ہے۔ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن کسی بھی صورت جسٹس قاضی فائز عیسی کے عہدے کی معیاد بڑھانے کے حق میں نہیں اور اسی لیے انہوں نے سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ مولانا اس معاملے پر کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں اور اسی لیے اب بلاول بھٹو نے بھی واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ ہی اگلے چیف جسٹس سپریم کورٹ ہوں گے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات اور وفاقی حکومت کے ترجمان عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ فی الحال یہی نظر آتا ہے کہ اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے۔ تام سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو اور عطا تارڑ کے بیانات کا مطلب یہ نہیں کہ قاضی فائز عیسی گیم سے آؤٹ ہو چکے ہیں۔ وہ پوری طرح سے کھیل میں ان ہیں اور حکومت انہیں مجوزہ آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس بنانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ ججز میں جسٹس فائز عیسی شاید وہ واحد جج ہیں جنہیں آئین پاکستان پر مکمل عبور حاصل ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ وہ آئینی عدالت کے پہلے سربراہ کے طور پر سب سے موزوں جج ثابت ہوں گے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ مل کر چلنے والے مولانا فضل الرحمن کو ائینی عدالت کے قیام کے مجوزہ مسودے کی حمایت پر آمادہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔