کیا منصور شاہ چیف جسٹس بن کر الیکشن 2024 کو کالعدم کر دیں گے ؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بنتے ہی فروری 2024 کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی انتخابی عذرداری کے کیس میں منصور علی شاہ کی سپریم کورٹ نے ایسا کوئی فیصلہ دے دیا تو ملک ایک سنگین ترین سیاسی اور آئینی بحران کا شکار ہو جائے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ بظاہر سپریم کورٹ کے ایک مخصوص ججوں کے ٹولے اور وفاقی حکومت کے مابین بڑھتی ہوئی لڑائی میں آئینی بریک ڈاؤن کا خطرہ موجود ہے اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کے بقول سب کچھ اس قدر تیزی سے ہو رہا ہے کہ سمجھنے اور سوچنے کا وقت ہی نہیں اور نہ ہی یپ خیال کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ تقسیم اور ریخت کے اس عمل میں کس کے حصے میں کیا آئے گا اور انجام کیا ہو گا۔ شاید اس بارے میں کوئی بھی فریق نہیں سوچ رہا چونکہ لڑنے والوں کو جمع تفریق کرنے کا وقت بھی نہیں مل رہا۔
عاصمہ کہتی ہیں کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نبض شناس سینیئر سیاست دان ہیں۔ انہوں نے میرے ساتھ گفتگو میں اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ اکتوبر میں قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سپریم کورٹ انتخابی عذرداری کا کیس سُنے گی، نتیجتاً انتخابات کالعدم ہونے اور شہباز حکومت کی رخصتی کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔‘ اس خدشے کے ببانگ دُہل اظہار کے اہم مقاصد میں سے ایک تمام حلقوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا اور سپریم کورٹ کی ممکنہ تبدیلی کے نتائج سے متعلق بروقت متنبہ کرنا تھا۔ شاید یہ اظہار غلط نہ تھا مگر اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں نے اس پر مہر ثبت کر دی۔ عاصمہ بتاتی ہیں کہ حکومت نے درپیش ممکنہ ’خطرے‘ کو بھانپتے ہوئے یا پہلے ہائبرڈ رجیم کے ’تسلسل فارمولے‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ’نامکمل ایجنڈے‘ کی تکمیل کے ’خیال‘ کو تصویر دینے کےلیے عدالتی ریفارمز پر مبنی ایک آئینی ترامیم کا پیکج پاس کروانے کی کوشش کی، مگر مخالف قوتیں جو کسی ڈائریکٹر کی فلم کا نامکمل پراجیکٹ ہیں، مسلسل ٹف ٹائم دینے میں مصروف ہیں۔ حکومت ابھی تک نہ تو جسٹس قاضی فائز عیسی کو توسیع دے پائی ہے اور نہ ہی آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے کوئی مثبت پیشرفت کر پائی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کی بجائے عمران خان کے ساتھ جا ملے ہیں جب کہ حکومت کو آئینی ترمیم پاس کروانے کےلیے دو تہائی اکثریت چاہیے۔ لیکن یہ لڑائی اب جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں محبت اور جنگ میں سب ’جائز‘ قرار دیا جا چکا ہے۔
حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کو روکنے اور منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے میں رکاوٹ ڈالنے کا جو طریقہ اور جواز اختیار کیا ہے اسے اپنے عمل سے نہ صرف متنازع بنا دیا ہے بلکہ سپریم کورٹ میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمان آئین اور قانون بنا سکتی ہے مگر جس عجلت سے ان سب مراحل پر کام کیا گیا اس نے خود پارلیمان پر ہی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ عاصمہ کے بقول آئینی ترمیم سے پہلے کے معاملات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کی چہ میگوئیوں کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے 15 میں سے آٹھ جج صاحبان کی جانب سے مخصوص نشستوں کے معاملے پر فیصلہ متنازع صورت اختیار کرگیا کہ جس میں اپیل سنی اتحاد کی تھی اور نوازا تحریک انصاف کو گیا۔ اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے اختیارات میں ازخود ترمیم کر کے آزاد اراکین کی جانب سے تین کے بجائے 15 دن کی رعایت بھی متنازع اور سپریم کورٹ کی حدود سے تجاوز قرار دی جا رہی ہے۔ یہ سب بہرحال کسی تصویر میں رنگ بھرنے سے روکنے کے لیے ہی تھا اور یوں عدالت نے اس تمام ’اہتمام‘ پر پانی پھیر دیا جو ’نظام‘ تشکیل دے رہا تھا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہین کہ عین اُس وقت جب پارلیمان کا اجلاس عدالتی ریفارمز پر مبنی آئینی ترامیم کا پیکج لانے کی تیاری کر رہا تھا، سپریم کورٹ کے آٹھ جج صاحبان نے جسٹس منصور علی شاہ کی زیر قیادت ’بروقت الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر اس کے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس خط میں 41 آزاد اراکین کو تحریک انصاف سے وابستہ قرار دے دیا۔ یہ بن مانگی مراد حکومت کی نمبر گیم میں ایسی آڑے آئی کہ نتیجتاً سپیکر کو آگے آنا پڑا۔ سپیکر ایاز صادق نے بھی الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر یہ مطالبہ کر ڈالا ہے کہ پارلیمنٹ نے حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں جو ترامیم کی تھیں ان ہی کی روشنی میں مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو حکومت کی دو تہائی اکثریت بحال ہوجاتی ہے، لیکن دوسری جانب سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں دوبارہ سے الیکشن کمیشن پر واضح کر دیا ہے کہ اس کے فیصلے کی روشنی میں ہی مخصوص نشستوں کی یہ الاٹمنٹ ہو گی اور صرف اور صرف تحریک انصاف کو ہی ہو گی۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ یہ لڑائی اب پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان شکوہ جواب شکوہ کی صورت جاری ہے جس کا انجام اکتوبر میں کسی ایک کے حق میں ہو گا۔ دوسری طرف آئینی ترامیم کا پیکج بغیر تیاری جلد بازی میں پارلیمنٹ میں لانے سے حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی مگر مولانا فضل الرحمٰن نے جس طرح اس صورت حال میں اپنے سیاسی قد میں اضافہ کیا اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پارلیمنٹ کی کل 13 نشستوں پر براجمان جے یو آئی ف تحریک انصاف کی 90 نشستوں پر بھاری ہے۔ مولانا کی جانب سے ’آدھی ہاں‘ پر پارلیمنٹ کااجلاس بلانے والے حکمران اتحاد کے پاس اب اُمید کی ایک ہی کرن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی ’آزاد‘ نشستوں کو اپنا بنا لے اور عددی برتری کے ساتھ آئینی عدالت کا قیام عمل میں لائے۔ ابھی اس کی ایک اور کوشش کی جائے گی اور اب کی بار شاید مولانا پر تکیہ نہ کیا جائے۔ تاہم مولانا آئینی عدالت کے حق میں ہیں اور قاضی صاحب کی توسیع کے خلاف۔ دوسری جانب آئینی ترمیم کی منظوری کی صورت وکلا تنظیموں کے میدان عمل میں آنے کی بھی تیاری ہے۔ پروسیجر ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ادارہ جاتی محاذ آرائی کو دو چند کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ سپریم کورٹ کے اندر بحران کی صورت نکل سکتا ہے۔۔ کیا ہم 90 کی دہائی کی طرح ایک عمارت میں دو سپریم کورٹس دیکھیں گے یا چند استعفے بھی متوقع ہوسکتے ہیں۔
ISIنے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کو آگے کیسے لگایا؟
عاصمہ کے بقول بظاہر ارتقائی عمل کی اس لڑائی میں آئینی بریک ڈاؤن کا خطرہ موجود ہے لیکن ایک سادہ سا سوال بہرحال پوچھنا ضروری ہے کہ کیا اس وقت اس ملک میں کوئی آئین موجود ہے؟ انتظار کیجیے، اکتوبر آ رہا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔