کیا مین لائن ون پراجیکٹ بننے سے ریلوے حادثات رک جائیں گے؟

ریلوے کے وزیر ہوں یا اعلیٰ حکام، یہ سب لوگ ان حادثات سے بچنے کا ایک ہی حل تجویز کرتے ہیں کہ اگر ایم ایل ون منصوبہ مکمل ہو جائے تو حادثات میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ 7 جون 2021 کو علی الصبح صوبہ سندھ کےعلاقے ڈہرکی کے قریب پیش آنے والےخوفناک ٹرین حادثے میں اب تک 55 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ اس حادثے سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔اس ہولناک حادثے کے بعد عوام میں غم و غصہ کی شدید لہر پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس حادثے کے ذمہ داران بشمول وفاقی وزیر برائے ریلویز اعظم سواتی عہدے سے استعفیٰ دیں بلکہ وزیراعظم عمران خان بھی مستعفی ہوں کیونکہ وہ ماضی میں ایسے حادثات پر اسی طرح کے مطالبات کیا کرتے تھے۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ریلوے ٹریک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور اس بارے ریلوے انجینئرز نے حادثے سے ایک ہفتہ قبل ہی متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا تھا کہ یہاں صورت حال کافی خراب ہے اور ریلوے ٹریک کی مرمت کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ لیخن اس کے باوجود ٹریک کی مرمت کیے بغیر اس پر ٹرین چلائی جا رہی تھی۔ دوسری جانب تحریک حکومت ن لیگ کی سابق حکومت کو اس بنیاد پر واقعے کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے کہ اس نے اپنے پانچ سالہ دور میں نہ تو ریلوے ٹریک بہتر کیا اور نہ ہی بہتر کوالٹی کے انجن خریدے۔ تاہم اس حادثے کی ذمہ داری ریلوے کے وزیر اعظم سواتی نے قبول کر لی ہے لیکن استعفی دینے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں میرے استعفے سے جاں بحق ہونے والے لوگ تو واپس نہیں آ سکتے۔
یاد رہے کہ پاکستان ریلوے کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں ٹرینوں کے مجموعی طور پر 434 چھوٹے بڑے حادثات پیش آ چکے ہیں۔ان حادثات میں 230 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے جبکہ 285 شدید زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 100 مسافر،121 راہ گیر اور نو ریلوے ملازمین شامل ہیں۔حکام کے مطابق یہ حادثات خستہ حال ریلوے ٹریک، ریلوے کے پرانے ڈھانچے، سگنلز میں خرابی، غلط کراسنگ، ریلوے لائن پر پھاٹک کی عدم موجودگی، ڈرائیورز کی غلطی، اور اسی طرح کی دیگر تکنیکی وجوہات کے باعث پیش آتے ہیں۔ اس ساری بحث میں یہ اہم سوال پوچھا جا رہا ہے کہ مستقبل میں ان اندوہناک حادثات سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ ریلوے کے وزیر ہوں یا اعلیٰ حکام، ان حادثات سے بچنے کا ایک ہی حل تجویز کرتے ہیں کہ اگر ایم ایل ون منصوبہ مکمل ہو جائے تو حادثات میں کمی ہو گی۔ پاکستان ریلوے کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر اعجاز بریرو کی رائے میں ہر حادثے کی وجوہات الگ الگ ہوتی ہیں اور اطلاعات کے مطابق گھوٹکی حادثے کی وجہ ریلوے ٹریک کا جوائنٹ ٹوٹنا بتایا جا رہا ہے۔ اعجاز بریرو نے کہا کہ پاکستان میں ریلوے کے نظام میں مسلسل دیکھ بھال اور مرمت کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر یہ مناسب انداز میں ہوتی رہے تو حادثات کا احتمال کم رہتا ہے۔اُن کے بقول حادثہ اسی وقت ہوتا ہے جب تین چار وجوہات جمع ہوں کیوں کہ ماضی میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کوئی بھی ایک وجہ کسی بھی ریل گاڑی کے پٹری سے اُترنے یا حادثے کی وجہ نہیں بن سکتی۔ انکے بقول لودھراں سے سکھر ٹریک کے حوالے سے شکایات عرصۂ دراز سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن حکومت اس سیکشن کی بہتری کی طرف توجہ دینے کے بجائے چین، پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ایم ایل ون منصوبہ مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ ایم ایل ون کے تحت پشاور سے کراچی تک نیا ٹریک بچھانے کا پلان ہے جو کہ سی پیک کا حصہ ہو گا۔ گزشتہ سال ایک ترخن حادثے کے بعد سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران عدالتی بینچ نے حادثات کی وجوہات اور ان کے حل کے بارے میں استفسار کیا تھا۔ اس پر تب کے وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا تھا کہ ایم ایل ون منصوبے کی تکمیل کے بغیر ریکوے حادثات پر قابو پانا ممکن نہیں۔ عدالت نے وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی سے اس منصوبے میں تاخیر پر جواب بھی طلب کیا تھا جس کے بعد سی ڈی ڈبلیو پی نے منصوبہ ایکنک کو منظوری کے لیے بھیجا تھا۔ویسے تو یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے بلکہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ سی پیک منصوبوں میں سب سے بڑا منصوبہ ہے تاہم اس پر تاحال کام شروع نہیں ہو سکا۔
سابق وزیر ریلوے سعد رفیق بھی ایم ایل ون منصوبے کو ہی حادثات سے بچاؤ کا واحد حل قرار دیتے ہیں تاہم وہ اس کی تاخیر پر موجودہ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔گھوٹکی میں ٹرین حادثے پر اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ یہ حادثہ کمزور سگنلنگ نظام کی وجہ سے پیش آیا جسے اپ گریڈ کرنے کے وسائل ریلوے کے پاس موجود نہیں ہیں۔انکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ریلوے کے ترقیاتی بجٹ میں 60 فیصد کمی کی جس میں ٹریک مینٹینینس کا بجٹ بھی کاٹا گیا۔دوسری جانب ترجمان ریلوے کا کہنا ہے کہ ایم ایل ون منصوبے پر کام رواں برس ہی شروع ہو جائے گا۔ریلوے حکام کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق ایم ایل ون منصوبے کے تحت کراچی سے پشاور اور ٹیکسلا سے حویلیاں تک 1872 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کواپ گریڈ اور ڈبل کیا جائے گا۔ نئے اور بہتر ٹریکس سے مسافر ٹرینوں کی رفتار 110 سے بڑھ کر 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔174 کلومیٹر ریلوے ٹریک پشاور سے نوشہرہ اور راولپنڈی پہنچے گا۔ راولپنڈی سے لالہ موسی کا 105 کلومیٹر اور خانیوال سے پنڈورا کا 52 کلومیٹر طویل ڈبل ٹریک بنے گا۔لاہور سے لالہ موسی کا 132کلومیٹر، لاہور سے ملتان 339 کلومیٹر کا ڈبل ٹریک بھی مکمل کیا جائے گا۔نواب شاہ سے 183 کلومیٹر ٹریک روہڑی سے ملائے گا اور حیدر آباد سے کیماڑی کا 182 کلومیٹر کا ٹریک بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت حیدرآباد ملتان کے درمیان طویل ترین 749 کلومیٹر کا ٹریک بھی ڈبل اور اپ گریڈ ہوگا۔تمام ٹریکس کے اردگرد حفاظتی باڑ اور راستے میں جدید ٹیلی کام سنگنلز کی تنصیب ہوگی جس سے ریلوے لائن پر حادثات کم ہوں گے جبکہ سگنلز کا نظام بہتر ہونے سے کراسنگ کے دوران ہونے والے حادثات میں بھی کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ٹرینوں کی آمدورفت کی تعداد 34 سے بڑھ کر 170 سے زائد ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔مسافر ٹرینوں کے علاوہ فریٹ ٹرینوں کے لوڈ میں 1000 ہزار ٹن اضافے سے وزن کی گنجائش 2400 سے بڑھ کر 3400 ٹن ہو جائے گی۔اس منصوبے کے تحت حویلیاں کے قریب جدید خصوصیات کا حامل ڈرائی پورٹ بھی تعمیر کیا جائے گا۔
ایم ایل ون منصوبے کی ابتدائی لاگت نو ارب ڈالر تھی جس میں پاکستانی حکومت کی ایکویٹی کی رقم بھی شامل تھی لیکن بعد میں اسے کم کر کے چھ ارب 80 کروڑ ڈالر تک محدود کر دیا گیا تھا۔اس منصوبے کے لیے چینی ایگزم بینک چھ ارب جبکہ پاکستان 80 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا۔ اس رقم کا بڑا حصہ لائن، باڑ اور سول ورک پر خرچ کیا جائے گا۔یاد رہے کہ ایکنک نے پانچ اگست 2020 کو اس منصوبے کی منظوری دی تھی۔ وزیراعظم خود اس منصوبے پر پیش رفت کے حوالے سے کئی جائزہ اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس منصوبے پر کام شروع نہیں ہو سکا اور ٹرین حادثات مسلسل قیمتی جانیں ضائع کر رہے ہیں۔